گزشتہ سترہ برس سے ترکی پر حکمرانی کرنے والے رجب طیب ایردوان جب استنبول کے میئر تھے، انھوں نے مشہور ترک شاعر ضیا گوکل کی ایک انقلابی رباعی ایک جلسہ عام میں پڑھی، جس پر ان کے خلاف مقدمہ قائم ہوا اور انھیں جیل بھیج دیاگیااور برسوں تک سیاست میں حصہ لینے پر پابندی بھی جھیلنا پڑی۔ رباعی کا خلاصہ یہ ہے: ’’مسجدیں ہماری چھاؤنیاں ہیں، مسجدوں کے مینار ہمارے میزائل اور گنبد ہمارے ٹینک ہیں جبکہ مساجد کے نمازی ہمارے لشکری ہیں۔‘‘
سیکولر فوجی جرنیل محض ان چارمصرعوں کو برداشت نہ کرسکے کیونکہ اس سے ان کے بنائے ہوئے’سیاسی نظام‘ کو ’شدید خطرات‘ لاحق ہوگئے تھے، پھروہی طیب ایردوان جیل سے باہرآیا تو یہی رباعی جلسوں میں سناتا، ترک قوم کی اکثریت اس پر جھومتی اور ایردوان کو سر،آنکھوں پر بٹھاتی رہی۔ سبب وہ رباعی نہ تھی بلکہ کارکردگی تھی، طیب ایردوان نے معاشی دیوالیہ پن کے شکار ترکی کو زوال کی تہوں سے نکالا اور اسے معاشی، سیاسی اعتبار سے دنیا کی بڑی طاقتوں میں لاکھڑا کیا۔ دو عشرے بیت رہے ہیں، ایردوان ایوان اقتدارمیں موجود ہیں لیکن اقتدار کے بھوکے جرنیلوں کا کہیں نام ونشان نہیں ملتا۔ اس میں بہت سوں کے لئے سیکھنے کو بڑے اسباق موجود ہیں۔
24جون 2018ء کو منعقدہ صدارتی انتخابات کے نتیجے میں طیب ایردوان نے52.6 فیصد ووٹ حاصل کرکے پہلے ہی راؤنڈ میںنئے سیاسی(صدارتی) نظام کے تحت پہلا منتخب صدر بننے کا اعزاز حاصل کرلیا، دوسرے نمبر پر اتاترک کی قائم کردہ سیاسی جماعت’ری پبلیکن پیپلزپارٹی‘ کے محرم اینجہ نے30.6 فیصد، تیسرے نمبر پر پانچ کردسیاسی جماعتوں کے مشترکہ امیدوار صلاح ایدین دیمرتاس نے8.4فیصد، چوتھے نمبر پر نیشنلسٹ جماعت ’حزب الخیر‘ کی بانی سربراہ میرال آکشنر نے7.3فیصد ، پانچویں نمبر پر ’سعادت پارٹی‘ کے تمل کرم اللہ اوغلو نے0.9 فیصد اور چھٹے امیدواردوغو برینجک نے 0.2 فیصد ووٹ حاصل کئے۔
شکست خوردہ محرم اینجہ نے رجب طیب ایردوان اور ان کی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے خلاف انتہائی نفرت انگیز تقاریر کرنے میں خوب نام کمایا۔دوسری شکست خوردہ امیدوار میرال آکشنر 1996-97 میں وزیرداخلہ رہیں ، وہ اپنے آپ کو نماز پنجگانہ کی پابند قرار دیتی ہیں، عمومی طور پر وہ بغیر سکارف اوڑھے زندگی گزارتی ہیں لیکن حالیہ صدارتی انتخابی مہم کے دوران میں ان کی ایسی تصاویر عام کی گئیں۔
جن میں وہ باحجاب نظر آئیں، بہرحال وہ ایک نیشنلسٹ نظریات کی حامل فولادی خاتون ہیں۔ چوتھے امیدوار صلاح الدین دیمرتاس کو حالیہ صدارتی انتخابات میں 9.77 فیصد ووٹ ملے، ان کی جماعت نے 2015 کے عام انتخابات میں 13 فیصد ووٹ حاصل کئے تو انھوں نے بھرپور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اعلان کیا کہ آج سے ان کی جماعت ایچ ڈی پی ترک جماعت ہے،ایچ ڈی پی ترکی ہے اور ترکی ایچ ڈی پی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 2014ء کے صدارتی انتخابات میں بھی انھیں 9.77 فیصد ووٹ ملے تھے۔صلاح الدین دیمرتاس نومبر2016ء سے جیل میں قید ہیں۔
ان پر الزام تھا کہ وہ علیحدگی پسند کردوں کی ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ پانچویں امیدوار تمل کرم اللہ اوغلو تھے اسلامی جماعت سعادت پارٹی کے امیدوار تھے، 2001ء سے پہلے طیب ایردوان اور کرم اللہ اوغلو نجم الدین اربکان کی قیادت میں ایک ہی جماعت کا حصہ تھے، یہ جماعت ترک فوجی ڈکٹیٹروں کے ہاتھوں بار بار پابندیوں کی شکار ہورہی تھی، اربکان ہر عام انتخابات میں بڑی کامیابی حاصل کرتے، نوے کی دہائی میں انھوں نے پارلیمان میں اکثریت حاصل کرکے وزارت عظمیٰ بھی حاصل کرلی تھی لیکن فوجی ڈکٹیٹروں نے ان کی حکومت نہ چلنے دی، انھیں برطرف کرکے اور ان کی جماعت پر پابندی عائد کردی۔
جس کے بعد وہ نئے نام سے جماعت قائم کرکے جدوجہد شروع کردی، اب کی بار طیب ایردوان نے ایک مختلف حکمت عملی اختیار کرکے سیاسی جدوجہد کا فیصلہ کیا، جس میں انھوں نے کامیابی حاصل کی تاہم ان کے پرانے ساتھی سعادت پارٹی کے جھنڈے تلے جدوجہد کررہے ہیں۔ دوغو برینجک چھٹے صدارتی امیدوار تھے، بائیں بازو کی وطن پارٹی کے سربراہ 2013ء میں حکومت کے خلاف ایک بڑی بغاوت میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار ہوئے، حکومت کے خلاف اس سازش میں پونے تین سو افراد گرفتار ہوئے تھے جن میں فوجی افسران، صحافی اور ارکان پارلیمان بھی شامل تھے تاہم چند ماہ بعد دوغو برینجک کو رہا کردیا گیا۔
ملک میں24 جون ہی کو پارلیمانی انتخابات منعقد ہوئے جس میں صدر طیب ایردوان کے ’پیپلزالائنس‘ کو53.7 فیصد، اپوزیشن کے نیشنل الائنس کو34 فیصد جبکہ کرد اتحاد ایچ ڈی پی نے11.7فیصد ووٹ حاصل کئے۔ فتح کے بعد ترک صدر نے ایک بڑی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اب ہم دہشت گرد گروہوں سے مزید قوت سے نمٹیں گے اور دنیا میں ترکی کے کردار کو وسعت دیں گے۔
یادرہے کہ صدارتی انتخابات نومبر2019ء میں ہونا تھے تاہم طیب ایردوان نے اپنی اتحادی جماعت ملی حرکت پارٹی کے سربراہ دولت باہلی سے مشاورت کے بعد قبل ازوقت انتخابات کا اعلان کردیا۔ وقت سے پہلے انتخابات کرانے کا سبب ایردوان نے یہ بتایا:’’ شام میں ترک فوج کے آپریشنز اور خطے بالخصوص شام اور عراق میں تاریخی تبدیلیوں کے تناظر میں ملک کے اندر سے غیریقینی کی صورت حال کا خاتمہ ضروری تھا۔ نئے سیاسی نظام میں جلد داخل ہونا ضروری ہوگیا تھا تاکہ مستقبل کے بارے میں ٹھوس فیصلے اور اقدامات کئے جائیں‘‘۔
صدرطیب ایردوان کی کامیابی کو ترک اپوزیشن جماعتوں نے تسلیم کرلیاہے لیکن مغربی ذرائع ابلاغ کا غصہ اور مایوسی دیدنی ہے۔ جب انتخابی نتائج آنا شروع ہوئے تو طیب ایردوان کے حاصل کردہ ووٹوں کی شرح 59 فیصد تھی، اُس وقت مغربی ذرائع ابلاغ پر تجزیہ کاروں کادعویٰ تھا کہ یہ برتری جلد ہی نیچے چلی جائے گی، جب اس شرح میں کمی واقع ہونے لگی توان مغربی تجزیہ کاروں کی باچھیں کھل اٹھیں۔
ایردوان کی شرح میں مزید کمی آئی تو تجزیہ کار اچھلنے لگے کہ ایردوان ناکامی کی طرف بڑھ رہے ہیں تاہم 60فیصد ووٹوں کی گنتی کے بعد جب ترک صدر کو حاصل کردہ ووٹوں کی شرح میں کمی کا سلسلہ تھم گیا تو ہرمغربی تجزیہ کار کو سانپ سونگھنے لگا۔ پچھلے دو مہینوں کے دوران میں امریکی، برطانوی، فرانسیسی حتی کہ بھارتی اخبارات اور چینلز کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتاتھا کہ ان کے لئے سب سے بڑا خطرہ طیب ایردوان ہی ہیں۔ ان دنوں میں بی بی سی، سی این این اور نیویارک ٹائمز سمیت مغربی ذرائع کی خبریں، تجزیے پڑھے جاتے تو بخوبی سمجھ آجاتا تو آزادانہ اور غیرجانبدارانہ صحافت کا دعویٰ کرنے والے دراصل زردصحافت ہی کرتے ہیں۔
مغربی ذرائع میں سے بعض نے انتخابی نتائج بتاتے ہوئے کامیابی کو طیب ایردوان کی طرف سے دعویٰ ظاہرکیا۔ اسرائیلی اخبار ’ہرتز‘ نے سرخی جمائی:’’ایردوان کی فتح، ترکی آمریت کی راہ پر‘‘، امریکی ’سی این بی سی‘ کا کہناتھا کہ طیب ایردوان کی کامیابی سے ترک معیشت کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔‘ بی بی سی کا کہناتھا کہ ملک اس قدرزیادہ تقسیم ہوچکاہے کہ ماضی میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ مغربی ذرائع ابلاغ واضح طور پر ترک قوم کو نصیحت کرتے رہے کہ طیب ایردوان نے بہت عرصہ حکمرانی کرلی، اب تبدیلی آنی چاہئے۔ تاہم مغربی ذرائع نے واضح طور پر یہ نہ بتایا کہ آخر یہ تبدیلی کیوں آنی چاہئے۔ قبل ازانتخاب ’بی بی سی‘ نے ایک سٹوری شائع کی جس کا عنوان تھا:’’ کیا اب ہم عثمانی تھپڑ کھائیں گے؟‘‘ اس سے بخوبی اندازہ ہوتاہے کہ مغرب طیب ایردوان کو کیوں اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتاہے۔
ترک صدرطیب ایردوان اب کیا کریں گے؟ وہ ’وژن 2023ء ‘ کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں، یہی وژن مغرب کے لئے ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہورہاہے۔ ایردوان نے اپنی قوم سے وعدہ کیاتھا کہ وہ 2023ء تک ترکی کو دنیا کی دس بہترین معیشتوں میں شامل کریں گے، یادرہے کہ اس وقت ترکی دنیا کی اٹھارھویں بڑی معیشت ہے۔ اسلام پسند ترک رہنما 2023ء تک جی ڈی پی کو دوگنا تک بڑھانا چاہتے ہیں۔
اگلے پانچ برسوں کے دوران فی کس اوسط آمدن 25000 ڈالر(امریکی) کے برابر ہوجائے گی،برآمدات کو 500بلین ڈالر تک بڑھایاجائے گا، غیرملکی تجارت کا حجم ایک کھرب ڈالر تک پہنچ جائے گا، شرح روزگار میں دس درجے کا اضافہ ہوگا، بے روزگاری کی شرح کو پانچ فیصد تک کم کردیاجائے گا، ونڈانرجی میں 20ہزارمیگاواٹ اور جیوتھرمل انرجی میں 600میگاواٹ کا اضافہ بھی ہدف ہے۔ اسی طرح14700میگاواٹ بجلی پیدا کرنے والے تین نیوکلئیر پلانٹ پیداوارشروع کردیں گے۔
سن2023ء تک ترکی یورپی یونین کا رکن بن جائے گا، وہ خطے کے ممالک کے ساتھ تعاون کو غیرمعمولی حد تک بڑھالے گا، پورے خطے میں تنازعات کو حل کرانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔2023ء میں ہرترک شہری کی ہیلتھ انشورنس ہوجائے گی، ملک میں ہر ایک لاکھ افراد کے لئے 210 ڈاکٹرز ہمہ وقت موجود ہوں گے۔ ریلوے ٹریک میں گیارہ ہزار کلومیٹر اور ہائی وے میں 15ہزار کلومیٹر کا اضافہ ہوگا، اسی طرح بندرگاہوں میں بھی اضافہ ہوگا اور انھیں دنیا کی بڑی بندرگاہوں میں شامل کیاجائے گا۔ 2023ء میں ترکی دنیا کا پانچواں بڑا سیاحتی مرکز ہوگا،یادرہے کہ اس وقت اس کی چھٹی پوزیشن ہے۔ اگلے پانچ برس بعد ہرسال 50ملین سیاحوں کی میزبانی کی جائے گی جبکہ اس انڈسٹری سے 50بلین ڈالر کے برابر سالانہ ریوینیوحاصل کیاجائے گا۔
یہ ہیں وہ اہداف جو طیب ایردوان حاصل کرناچاہتے ہیں، کوئی بھی فرد چشم تصور سے دیکھ سکتاہے کہ 2023ء میں ترکی دنیا میں کس قدر مضبوط معاشی اور سیاسی مقام حاصل کرلے گا، اُس وقت عالمی فیصلہ سازی میں ترکی اہم کردار ادا کرے گا، ایک مسلمان ملک کو یہ مقام و مرتبہ حاصل ہو، بعض مغربی طاقیں یہ برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ان مغربی قیادتوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ دنیا کی باقی اقوام کو مسائل سے دوچار رکھ کر خود حکمرانی کے مزے لیناچاہتی ہیں۔ تاہم طیب ایردوان کی کامیابی کا منطقی نتیجہ یہ ہوگا کہ اگلے پانچ برس بعد ترکی کے اردگرد کے خطے میں معاملات ترکی ہی کی مرضی سے سرانجام دئیے جائیں گے۔ یادرہے کہ فلسطین اور بیت المقدس بھی اسی خطے میں واقع ہے۔
انتخابات سے قبل رائے عامہ کے جائزے کیاظاہر کررہے تھے؟
ترکی کے انتخابی قوانین کے مطابق یوم انتخاب سے دس روز پہلے یعنی چودہ جون کے بعد انتخابی نتائج سونگھنے کی خاطر رائے عامہ کا کوئی بھی جائزہ منعقد نہیں ہوسکتا تھا، اس کے باوجود چند اداروں نے اس ضابطے کی خلاف ورزی کی۔ ان میں سے اداروں کے جائزوں کے مطابق رجب طیب ایردوان پہلے ہی مرحلے میں پچاس فیصد سے زائد ووٹ لے کر صدر منتخب ہوجائیں گے تاہم دو اداروں کے نتائج کے مطابق وہ سب امیدواروں سے کہیں آگے ہوں گے لیکن صدارتی انتخاب کا دوسرا مرحلہ بھی منعقد ہوگا جو ممکن ہے کہ فیصلہ کن ہو۔ چودہ سے بیس جون کے درمیان میں آپٹیمر کے زیراہتمام سروے میں طیب ایردوان اکاون اعشاریہ چھ فیصد لوگوں کی حمایت حاصل ہے، ان کے مقابل انسی کو اٹھائیس فیصد عوامی حمایت حاصل تھی۔
ایک دوسرے ادارے او آر سی کے مطابق طیب ایردوان پہلے مرحلے ہی میں تریپن فیصد ووٹ حاصل کرلیں گے، اس جائزے کے مطابق انسی کی حمایت انتیس فیصد ہے۔ اے کے اے ایم نامی ادارے کی رپورٹ کے مطابق تئیس جون کو ایردوان کی حمایت چوالیس اعشاریہ پانچ فیصد تھی جبکہ انسی کواٹھائیس اعشاریہ تین فیصد۔ گیزیسی نامی ادارے نے سولہ اور سترہ جون کو لوگوں کی رائے معلوم کی تو معلوم ہوا کہ طیب ایردوان کو اڑتالیس اعشاریہ دو فیصد جبکہ انسی کو انتیس فیصد عوامی حمایت حاصل تھی۔
The post طیب اردوان کی کامیابی مغرب کے لئے ہضم کرنا مشکل appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2tHyiO7
No comments:
Post a Comment