انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کے حوالے سے بننے والا گرینڈ اپوزیشن الائنس میں تقریباً وہ تمام جماعتیں شامل ہیں جو گژشتہ دورِ حکومت میں اقتدارمیں تھیں ماسوائے پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے. ایم کیو ایم تب بھی وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہی تھی اور آج بھی ملا جلا رجحان دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کو اپنی ساکھ قائم رکھنے کے لیے متوقع حکومتی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ بیٹھنا ہی فائدہ دے سکتا ہے جبکہ اپوزیشن میں 6 سیٹوں کے ساتھ بیٹھنا ایم کیو ایم کے لیے مزید پستی میں جانے کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ اس لیے قوی امکان ہے ایم کیو ایم کچھ زیادہ مانگ کر حکومت کا حصہ بننے کو ترجیح دے گی کیونکہ سندھ میں اکثریتی جماعت پیپلز پارٹی ہے جو مراد علی شاہ کو وزیرِ اعلیٰ نامزد کرکے پورے سندھ میں اپنے پائوں مزید پکے کرے گی۔ ان حالات میں متحدہ قومی موومنٹ کو اپنے آپ کو زندہ رکھنے کے لیے پی ٹی آئی سے مصنوعی سانس لینا ہی پڑے گا چاہے وہ پورٹ اینڈ سیپنگ کی وزارت ہو یا وزات کھیل ہی کیوں نہ ہو، آمین کہنا ہی ہوگا۔
ایم کیو ایم پاکستان کا تو واضح ہوگیا وہ حکومت میں بیٹھے گی۔ اب گرینڈ اپوزیشن الائنس میں پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلزپارٹی اور ایم ایم اے بڑی جماعتیں ہیں، ان میں سے ایم ایم اے جو بغیر کسی سیاسی فائدے کے اپوزیشن میں بیٹھے گی. اب دوڑ دو بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان ہے۔ اس میں ابھی تک پاکستان پیپلز پارٹی سب جماعتوں کو قومی اسمبلی میں لانے میں کامیاب ہوئی ہے اور پیپلز پارٹی نے نہایت سمجھداری سے تمام جماعتوں کو حلف اٹھانے پر رضامند بھی کرلیا ہے اور اس سیاسی کھیل میں سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والی جماعت بھی پاکستان پیپلز پارٹی ہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اپوزیشن جماعتوں میں دوسرے نمبر پر آنے والی جماعت ہے۔ پیپلز پارٹی بلاول بھٹوکو قائدِ حزب اختلاف بنانے کی کوششوں میں لگی ہے۔ پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن کو وزیراعظم کی دوڑ میں قومی اسمبلی میں اپنا امیدوار کھڑا کرنے پر رضامند کرے گی اور آدھی پیپلز پارٹی ووٹ عمران خان کو دے گی۔ یوں مسلم لیگ ن وزیراعظم کے امیدوار کھڑا کر کے خوش ہو جائy گی اور پیپلز پارٹی اس یقین دہانی کے ساتھ مسلم لیگ ن سے بلاول کو اپوزیشن لیڈر کا ووٹ حاصل کر کے اپنا مقصد پورا کرلے گی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کو اس بات کا علم ہے بلاول بھٹو کو اگر قائدِ حزب اختلاف نہ بنایا گیا وہ عمران خان کی طرح قومی اسمبلی میں کبھی کبھار ہی تشریف لائیں گے جو مستقبل کے وزیراعظم ہونے کے لیے انتہائی غیر موزوں عمل ہوگا اور بلاول بھٹو کو قائدِ حزب اختلاف ہونے کی صورت میں اسے وہ سب کچھ سیکھنے کو ملے گا جو آئندہ حکومت بنانے میں قلیدی کردار ادا کرے گا۔ آصف علی زرداری نے جس نفاست سے چال چلی ہے پاکستان مسلم لیگ ن اس کے مقابلے میں بے بس نظر آ رہی ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ن لیگ سیاسی دلدل میں دھنستی جارہی ہے، ن لیگ اگر خود کو بچانے کے لیے اپوزیشن الائنس سے الگ ہوتی ہے تو پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی، ایم کیو ایم اور ایم ایم اے سے سپورٹ حاصل کرکے بلاول بھٹو کو قائدِ حزب اختلاف بنانے میں کامیاب ہو جائے گی اور ن لیگ اپوزیشن میں بیٹھے ہوئے سوائے بڑی سیاسی جماعت کا لیبل لگائے اور کچھ نہیں ہوگی۔ بصورت دیگر اگر مسلم لیگ ن اپنا اپوزیشن لیڈر بنانے جائے گی تو تب مطلوبہ اپوزیشن لیڈر کے لیے درکار ووٹ مسلم لیگ ن کا امیدوار حاصل نہیں کر سکے گا۔ یہاں بھی مسلم لیگ ن کو سینٹ کی طرح مات ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ آصف علی زرداری بڑی گیم کے کھلاڑی ہیں۔ وہ مائنس ن لیگ کرکے پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کے ساتھ باریاں لینے کا منصوبہ بنائے بیٹھے لگ رہا ہے اور وہ اس منصوبے میں کامیاب بھی ہوجائیں گے۔ اگر ایساہوا تو ن لیگ 64 نشستوں سے 34 پر آجائے گی۔
مسلم لیگ ن کے ہاتھ سے وقت ریت کی طرح سرکتا جا رہا ہے۔ مسلم لیگ ن کوکسی بھی قیمت پر پنجاب کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہئیے کیونکہ اگر پنجاب ہاتھ میں ہوگا تو عمران خان کے وزیراعظم ہونے اور بلاول بھٹو کے اپوزیشن لیڈر ہونا بے سود ثابت ہوگا۔ یوں پاکستان مسلم لیگ ن آئندہ الیکشن میں پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کی پارنٹر شپ توڑنے میں کامیاب ہوجائے گی۔ اب دیکھنا ہے شطرنج کی اس کھیل میں کون اپنے مہرے پیٹنے سے بچانے میں کامیاب ہوتا ہے۔
The post گرینڈ اپوزیشن الائنس میں اپوزیشن لیڈر کون؟ appeared first on دنیا اردو بلاگ.
from دنیا اردو بلاگ https://ift.tt/2Aq4FHb
No comments:
Post a Comment