جب سودے ضمیروں کے ہوں تو وفا کی امید نہیں رکھتے۔ جس نظام میں ایمان خریدنا اور بیچنا حکومت سازی کے لئے لازم ہو وہاں خیر کی توقع کیسے رکھی جا سکتی ہے۔
ایک اسلامی ریاست میں مسلمان نمائندوں کے ضمیر خرید کر انسانیت کی فلاح کی بات کرنا بذات خود اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔
جب سامنے نظر آ رہا ہو کہ جال بچھا ہے اور ٹارگٹ میری ذات ہے تو اس سے بچنا لازم اور ضروری ہوتا ہے۔ اس نظام نے اپنا جال ہر سمت بچھا رکھا ہے اور کسی بھی خیر کے طالب، حق کے پرستار، اور ملک میں مثبت تبدیلی چاہنے والے کو اس نظام نے ذرا بھر بھی سپیس نہیں دے رکھا کہ کوئی ایک تو قومی فلاح و بہبود کے لئے اپنی خدمات ادا کرسکے۔
موجودہ الیکشن اور اس کے نتائج ہی دیکھ لیجیئے، اس نظام نے اپنی بساط پہلے ہی ایسے بچھا رکھی تھی کہ کس کو کس طرح راضی کرنا ہے۔
آج اگر وہی حسبِ سابق خرید و فروخت کی منڈی لگی ہے تو خریدنے والوں کو جان لینا چاہئیے جو آج ان کے ہاتھوں بک رہے ہیں، کل ان کا خریدار کوئی اور بھی ہو سکتا ہے۔ کوئی فارورڈ بلاک بھی بن سکتا ہے۔
آج اگر خریدتے وقت کوئی عیب محسوس نہیں ہوتا تو کل جب کوئی چھوڑ کے جائے گا تو اس وقت بھی تکلیف محسوس نہ کی جائے۔
بجائے ایسے نظام کو تین طلاقیں دینے کے اسی نظام کو مضبوط کرنے سے کوئی تبدیلی نہیں آنی۔ ہاں یہ وقت ہے کہ اس نظام اور اس کے محافظوں کو ٹھوس جواب دیا جائے اور مسترد کر دیا جائے۔ اس نظام کو جس نے ایمان کو ضمیر کو اخلاقیات اور قانون کو اپنے پائوں تلے روند کے رکھ دیا ہے۔
ابھی اس موضوع پہ لکھنا نہیں چاہتا تھا۔ تازہ تازہ غبار چڑھا ہے۔ پوری قوم ایک نئے نشے میں مبتلا ہے۔ اس نشے اور سرور کو زائل نہیں کرنا چاہتا تھا مگر کل جو رونا دھونا کرنا ہے، آج ہی اس رونے دھونے کے اسباب کو اگر اخلاقی جرات سے مسترد کر دیا جائے اور اس کرپٹ نظام کو چیلنج کر دیا جائے جو نظام ایمانداری، اخلاص نیت اور دیانتداری کے راستے میں حائل ہے تو شاید آنے والا کل ہماری آئندہ نسلوں کے لئے ایک روشن مستقبل کا ضامن بن کر ظاہر ہو۔ ضمیروں کے سودے بلآخر ایمان فروش ،دین فروش اور وطن فروش پیدا کرتے ہیں۔
جو کبھی بھی کسی آزاد خودمختار ریاست کے لئے سود مند نہیں رہے۔
جس بگاڑ کی ہم اصلاح چاہتے ہیں اگر اسی طرح خرید وفروخت کے ذریعے حکومت سازی ہوئی، جہاز ترین ہوائوں میں ادھر سے فراٹے بھرتا رہا اور عوامی اعتماد کے ساتھ ایسا ہی کھیل کھیلا جاتا رہا تو پھر آنے والے ایام سابقہ تمام ادوار سے زیادہ بھیانک ہونگے۔ ان آنے والے دنوں کی منصوبہ بندی اور اس نظام سے نجات کا وقت آج ہے۔ آج اگر تبدیلی کے دعویدار مروج سیاسی روایات سے نکلنے کی بجائے انہیں طور اطوار کو اپناتے ہیں تو مستقبل قریب میں اس سیاسی فریب کا انجام انتہائی بھیانک بھی ہو سکتا ہے۔ آج پاکستانی قوم اس کرپٹ نظام سے مکمل طور پر اکتائی ہوئی ہے۔ اگر عوامی مزاج کے خلاف وہی سابقہ طرزِ عمل اپنایا گیا تو اس کے بعد پھر خونی انقلاب کا راستہ ہی رہ جائے گا۔ جس کے چند ایک مناظر بعض مقامات پر الیکشن کمپین کے دوران بعض امیدواروں کے ساکھ عوامی سلوک اور پھر الیکشن نتائج کے بعد بعض حلقوں میں دورانِ احتجاج عوامی شدت بھرے جذبات کی صورت میں قبل از وقت ہی سامنے آ گئے ہیں۔
The post ضمیر یہاں پہ ارزاں ہیں appeared first on دنیا اردو بلاگ.
from دنیا اردو بلاگ https://ift.tt/2Ou9H8k
No comments:
Post a Comment