Tuesday, July 31, 2018

سیرا لیون سے ایبولا وائرس کی نئی قسم دریافت

سیرالیون: افریقا میں 10 برس قبل ایبولا وائرس کی وبا پھوٹنے کے بعد ماہرین نے اب خبردار کیا ہے کہ اس وائرس کی تبدیل شدہ شکل سیرا لیون کی چمگادڑوں میں دریافت ہوئی ہے لیکن ماہرین نہیں جانتے کہ ایبولا کی یہ نئی قسم کتنی خطرناک ہے؟

اگرچہ ایبولا وائرس کی نئی قسم پر ابھی تحقیق کی ضرورت ہے لیکن اس سے ایبولا کے حملے اور پھیلاؤ کو سمجھنےمیں بہت مدد ملے گی۔

قبل ازیں 2008 میں بنڈی بگیو ایبولا وائرس دریافت ہوا تھا جو اس نسل کا نیا وائرس بھی تھا اور کہا جاتا ہے کہ 2013 میں پھوٹنے والی وبا کی پشت پر بھی یہی وائرس تھا جس نے مغربی افریقا میں 11 ہزار افراد کو ہلاک کیا تھا لیکن ان اموات میں 1976 کے زائر ایبولا وائرس کا بھی اہم کردار تھا۔

نیا وائرس پی آر ای ڈی آئی سی ٹی پروگرام پر کام کرنے والے سائنس دانوں نے دریافت کیا ہے جس کے نگراں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا ڈیوس کے ماہرین ہیں اور وہ جانوروں سے انسانوں تک منتقل ہونے والے امراض اور وائرس پر تحقیق کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔

ماہرین نے ایبولا کی نئی قسم کو بومبالی وائرس قرار دیا ہے جو کیڑے مکوڑے کھانے والی چمگادڑوں میں دریافت ہوا ہے اور یہ چمگادڑ گھروں میں بھی رہتی ہے۔

ماہرین نے مسلسل تجربات کے بعد یہ بری خبر سنائی ہے کہ نیا وائرس چمگادڑوں سے انسانوں میں تو منتقل ہوسکتا ہے لیکن اب یہ معلوم کرنا ہے کہ یہ انسانوں کو کس قدر نقصان پہنچاسکتا ہے۔

تحقیق میں شامل یونیورسٹی آف کولمبیا میں وائرسیات کے ماہر سائمن اینتھونی کہتے ہیں کہ نیا وائرس انسانی انفیکشن کے بارے میں ہماری معلومات میں اضافہ کرے گا، ایسے وائرس کا جینیاتی تجزیہ بھی انسانوں میں ان کے پھیلاؤ کو سمجھنے میں مدد دے گا۔

واضح رہے کہ فطرت کے کارخانے میں چمگادڑیں ایبولا سمیت 100 مختلف وائرسوں کی آماجگاہیں ہوتی ہیں اور ان کا طاقتور امیون سسٹم انہیں بیمار ہونے سے روکتا ہے۔ اسی لیے وہ کئی بیماریوں کی شکار نہیں ہوتیں لیکن ان کے تھوک اور فضلے سے یہ وائرس خارج ہوتے ہیں جو انسانوں کو متاثر کرتے ہیں اور ایبولا وائرس بھی اسی طرح پھیلا ہے۔

The post سیرا لیون سے ایبولا وائرس کی نئی قسم دریافت appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2v0emGY

No comments:

Post a Comment

May or later: Rocket Lab may launch a small probe to Venus

By Unknown Author from NYT Science https://ift.tt/OPbFfny