وہ مر گیا۔ اُس نے شاید مرنا ہی تھا۔ انسانوں کی بستی میں اُسے حیوان سمجھا جاتا تھا مگر اُس بے زبان کو یہ تک معلوم نہ تھا کہ وہ تو خود حیوانوں میں گھرا بیٹھا ہے۔ کتنا لطف حاصل ہوا ہوگا جب اپنے حریف کی تضحیک کے لئے یہ طریقہ آزمایا جارہا ہوگا۔ ایک ایک ضرب پہ اُس نے بھی سوچا ہوگا کہ میں کہاں آگیا؟ ایک ایک چٹختی ہڈی کے ساتھ شاید آہ بھی نکلی ہوگی جو عرش تک پہنچی ہوگی۔ جب گولی نے جسم میں پیوست ہوکے روح کا رشتہ د ل و جان سے منقطع کیا ہوگا تب آخری ہچکی ضرور حیرانی کے ساتھ آئی ہوگی کہ کیا یہ واقعی انسانوں کی بستی ہے۔ جب زخمی اور بے جان لاشے پہ فتح کے نعرے بلند کیے گئے ہوں گے تو شاید زمین و آسمان نے بھی آنکھیں موند لی ہونگی۔ کیونکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں وحشت و بربیت کے برہنہ رقص کے ساتھ چند انسانوں نے اپنی سیاسی انتقام اور حیوانی جبلت کی تسکین کے لئے ایک گدھے اور کتے کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔
دو تین دن سے یہی کوشش کر رہا ہوں کہ بھلا دوں۔ جانور نجس ہوتا ہے اور وہ بھی گدھا یا کتا۔ ایسے میں جہاں انسانوں کی بستی میں انسانوں کا خون سستا ہو وہاں جانوروں کی موت پہ کیا ماتم برپا کرنا۔ جہاں اخلاص، مروت، برداشت کی جگہ تشدد، حیوانیت اور ظلم نے لے لی ہو وہاں اس چھوٹے واقعہ پہ قلم اُٹھا کے اپنی دانشوری کیوں جھاڑنے کی کوشش کروں۔ میں بھی اسی بستی کا مکیں ہوں جہاں کہ اشرف المخلوقات اس واقعہ میں ملوث تھی۔ خیر یہ واقعہ پیش بھی آگیا اور کچھ سرخیوں میں جگہ بن گئی اس خبر کی۔ کچھ تعز یتی الفاظ فیس بک کی دیوار وں کی نذر ہوئے۔ کسی سیاسی جماعت کے سربراہ یا رہنماء کو اپنی قوم کے اخلاقی دیوالیہ پہ مذمتی بیان کی نہ سوجھی۔ کسی سیاسی جماعت کی طرف سے اتنی جراءت کا مظاہرہ نہیں کیا جاسکا کہ اس واقعہ میں ملوث کارکنان کی مذمت کرتے یا اُنہیں معطل کرنے کا اعلان کرتے۔ شاید ان دنوں سیاستدانوں اور سیاسی کارکنان کی توجہ صرف اپنے پوائنٹ اسکورنگ پہ تھی کہ کون کتنا چور ہے کون کتنا امانت دار ہے؟ کون دیانت دار ہے اور کون تبدیلی کا پرستار ہے؟ کون زانی ہے کون شرابی؟ مطلب ایک عجیب جنگ تھی جس میں چہار طرف صرف الزامات کی بوچھاڑ تھی۔ صاف ظاہر تھا کہ یہ جنگ اصلاح سے قطع نظر صرف الیکشن میں عوامی اعتماد حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی قبیح کوشش ہے۔ نتیجتا ًیہی روایت عام آدمی تک منتقل ہوتی ہے اور رفتہ رفتہ یہ رویےہماری زندگی کا مکمل حصہ بن کے ہمارے اجتماعی ضمیر کے مردہ ہونے کی دلیل بن جاتے ہیں۔
کہنے کو ایک بہت ہی چھوٹی بات ہے مگر جس معاشرے میں جانوروں کے حقوق غضب کیے جائیں وہیں خدا کا عذاب اُس قوم کی بربادی کا سامان بنتا ہے۔ کہاں وہ دور جہاں دریائے فرات کے کنارے ایک کتا مرنے کی فکر سربراہ ریاست کو فکر میں مبتلا رکھتی تھی اور کہاں آج کا دور جہاں قدم قدم پہ کیا جانور کیا انسان سب کے حقوق ہم سب مل کے غضب کرتے ہیں۔ کتا جس کی وفاداری ایک ضرب المثل ہے اور گدھا جس پہ بوجھ لاد کے انسان اپنی ضرورت کی اشیاء حاصل کرتا ہے اُس کی قدر ہم کیسے کرسکتے ہیں کیونکہ شاید ہم تو خود اپنے مالک کے وفادار نہیں۔ مصائب و آلام کا ذرا سا بوجھ ہماری نازک طبعیت پہ گراں گذرتا ہے جس کے نتیجے میں فورا ہماری زباں کلمہ خیر کی جگہ شکوہ شکایات کے انبار لگا دیتی ہے۔ ان معصوم جانوروں کا نوحہ پڑھے تو کون پڑھے؟ تبدیلی والے نئے پاکستان کی خوشیاں منانے میں مگن ہیں۔ منبر و محراب اور جبہ و دستار کے حاملین دھاندلی کے خلاف محاذ سنبھالنے میں مصروف ہیں۔ پچھلے پانچ سال راج کرنے والے اپنے قائد اور اُن کی محترمہ صاحب زادی کی قید میں سوگ کا شکار ہیں۔ کراچی کے دعویدار ٹکڑوں میں تقسیم ہیں۔ اپنے قائد کو تیس چالیس سال بعد بھی زندہ سمجھنے والے اقتدار کی جوڑ توڑ میں مصروف ہیں تو میں نے ہی سوچا کہ نجس موت پہ کچھ لکھ ڈالوں کیونکہ ہر سمت ایک “پاکیزہ جشن ” بپا ہے جس میں مخل ہوکہ میں رنگ میں بھنگ نہیں ڈالنا چاہتا۔ شاید اسی طرح کسی کو ان بے وقعت جانوں کی قدر و قیمت کا احساس ہو اور انسانیت پھر کبھی شرمسار نہ ہو۔
The post نجس موت پہ پاک جشن appeared first on دنیا اردو بلاگ.
from دنیا اردو بلاگ https://ift.tt/2LLpxNu
No comments:
Post a Comment