25 جولائی 2018 کو پاکستانی عوام نے جوش و جذبے کے ساتھ اپنے واحد مفت حق کا استعمال کرتے ہوئے اپنے پسندیدہ امیدوار کو ووٹ دیا۔
کچھ عوام نے شیر پر مہر لگا کر شیر کو پنجرے سے آزاد کرانے کی کوشش کی۔ کچھ نے تیر پر مہر لگا کر بے نظیر اور ذولفقار علی بھٹو کے ساتھ وفاداری کا ثبوت دیا۔ کچھ نے پتنگ پر مہر لگا کر بقیہ ایم کیو ایم کو بچانے کی کوشش کی اور کچھ نے اپنی پسندیدہ مذہبی جماعت کو ووٹ دے کر اپنا اسلامی فریضہ مکمل کیا۔ مگر اکثریت عوام نے نئے پاکستان کی لالچ میں بلے پر مہر لگا کر عمران خان کی جماعت کو 115 سیٹوں سے نوازا۔
ہمیشہ کی طرح الیکشن کے نتائج کے بعد بڑے بڑے سیاستدانوں کو بڑے بڑے جھٹکے بھی ملے اور یہ جھٹکے برداشت کرنا ہمیشہ کی طرح مشکل بھی ہو رہے ہیں۔
ان تمام جھٹکے ملنے والے ناکام امیدواروں نے ایک دوسرے کو حوصلہ دینے کے لیے اے پی سی نامی اجلاس منعقد کیا۔ جس کے میزبان مولانا فضل الرحمٰن تھے اور ان کے ساتھ تمام ناکام سیاست دانوں نے سر جوڑ کر مشاورت کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکالا کہ ہم اپنی ہار تسلیم نہیں کرینگے۔ اس لیے ہم الیکشن کے نتائج کو تسلیم نہیں کرتے۔
ہار تسلیم نا کرنا یہ صرف سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ ایک انسانی مسئلہ ہے جو بیشتر تعلیمی اداروں میں بھی پایا جاتا ہے۔ جب طالب علم پورا سال آوارہ گردی کرنے کے بعد امتحان میں فیل ہوجاتا ہے اور پھر سارا الزام اپنے اساتذہ اور اپنے سے آگے آنے والے بچوں پر لگا دیتا ہے۔ ہار تسلیم کرنے کے لیے ہمت اور حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے جو ہر انسان کے بس کی بات نہیں۔
مولانا فضل الرحمن کو ابھی تک یقین نہیں آ رہا کہ وہ الیکشن ہار چکے ہیں۔ جس میں بے شک مولانا کی کوئی غلطی نہیں کیونکہ وہ بیچارے جیت جیت کر بھول چکے تھے کہ ہار بھی کس چڑیا کا نام ہوتا ہے۔ اب مولانا صاحب اپنی ہار کو ِخدانخواستہ اسلام کی ہار بنا کر پیش کر رہے ہیں اور ملک بھر میں 1971 کی طرز پر حکومت گرانے کے لیے تحریک چلانے کا اعلان کر رہے ہیں۔ جس کا مقصد یہ ہے کہ ہم تمہیں حلوہ اکیلے اکیلے نہیں کھانے دے سکتے۔ ہمیں بھی حلوہ میں اپنا حصہ چاہئیے۔ مولانا صاحب وہ سیاسی شخصیت ہیں جنہوں نے چاہے مارشل لاء ہو یا جمہوری ادوار اسمبلی کی کرسی کبھی نہیں چھوڑی اور ہر قسم کی حکومت کا حصہ بنے رہے۔ مگر مولانا صاحب اس مرتبہ بہت پریشان ہیں کیونکہ ان کے پاس حلوہ کھانے کے لیے اسمبلی کی کرسی موجود نہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا مولانا صاحب اپنے گھر کی سادہ کرسی میں بیٹھ کر آرام سے حلوہ کھانے کی عادت بنالیں گے یا نہیں۔
پاکستانی عوام نے ستر سالوں تک مولانا اور دیگر سیاست دانوں کو صبر شکر کرتے ہوئے برداشت کیا ہے۔ اب عوام میں اتنی طاقت آچکی ہے کہ وہ عمران خان کو بھی صبر شکر کے ساتھ آرام سے پانچ سال برداشت کرسکتے ہیں۔ ایک پاکستانی ہونے کی حیثیت سے ہارنے والے امیدواروں سے گزارش کرتا ہوں کہ اب خود بھی سکون کے ساتھ رہیں اور عوام کو بھی سکون کے ساتھ رہنے دیں اور جمہوریت کو چلنے دیں۔
The post اس بار حلوہ نہیں ملے گا appeared first on دنیا اردو بلاگ.
from دنیا اردو بلاگ https://ift.tt/2Aq4n33
No comments:
Post a Comment