Thursday, August 16, 2018

پاکستان کب بنا؟

پاکستان اپنی عمر کے اس حصے میں پہنچ چکا ہے جس میں اس کی اکثریت نے یہ ملک بنتے نہیں دیکھا۔ بیس کروڑ سے زائد آبادی کے اس ملک میں بیشتر لوگ پیدائشی پاکستانی ہیں اور ان کے لئے یہ ملک ایک اٹل حقیقت ہے۔ ہمیں تقسیم ہند کے بارے میں جو کچھ پتہ ہے وہ ہم نے بڑے بوڑھوں سے سنا یا پھر جو اسکول میں پڑھایا گیااس سے۔ مگر اس میں کچھ توحقیقت تھی اورکچھ مبالغہ!

مثلاً ایک بنیادی سی تاریخی حقیقت یہ ہے کہ پاکستان چودہ اور پندہ اگست کی درمیانی شب بارہ بجے بھارت کے ساتھ وجود میں آیا۔ یوں اس ملک کی جڑواں پیدائش 15 اگست کو ہوئی- لیکن بقول ڈاکٹر مبارک علی پاکستان میں یہ اعتراض بعد میں اٹھا کہ اگر یہ ملک، بھارت کی ضد میں بنا اور اس سے مختلف ہوگا تو دونوں ملک ایک ہی دن اپنی سالگرہ کیسے منا سکتے ہیں؟ یوں یہ فیصلہ کیا گیاکہ اگر بھارت پندرہ اگست کو یوم آزادی منائے گا تو ہم اس سے ایک دن پہلے چودہ اگست کو یہ دن منایا کریں گے۔ لیکن ہم نے یہ حقائق دبا دئیے- آج جب آپ پاکستانیوں کو یہ بات بتائیں تو وہ حیران ہوتے ہیں کہ ہمیں کتابوں میں یہ سب کیوں نہیں بتایا گیا-

بعض لوگوں کے نزدیک شاید زیادہ اہم سوال یہ ہےکہ بانی پاکستان محمد علی جناح آخر کس قسم کا ملک چاہتے تھے؟ ایک جمہوری ملک جہاں مذہبی اقلیتیں برابر کے شہری ہوں۔یا پھر ایک ایسا ملک جو اسلام کا قلعہ بنے، جہاں عسکریت ،اکثریت پر حاوی ہو ؟

جناح صاحب اپنے دور کے زبردست وکیل اور سیاستدان تھے۔ لیکن جدوجہد پاکستان کے دوران انہوں نے مختلف مقامات پر مختلف باتیں کہیں۔ کہیں وہ انگریز طرز جمہوریت سے متاثر ایک ڈیموکریٹ نظر آئے، تو کہیں شریعت کے حامی ایک مذہبی رہنما! ۔جناح صاحب ملک بننے کے ایک سال بعد وفات کرگئے اور انہیں اپنے روشن خیال اعتدال پسند نظریات کے تحت اس ملک کو ڈھالنے کا موقع نہ مل سکا۔ جناح صاحب نے اپنے پیچھے کئی تقاریر چھوڑیں لیکن آنی والی نسلوں کے لئے اپنے افکار پر مبنی کوئی کتاب ، کوئی واضح خاکہ نہ چھوڑا۔ نتحجہ یہ نکلا کہ پاکستان بننے کے بعد ابتدائی دہائیوں سے ہی حکومت نے نصاب میں تاریخ کو مسخ کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ برصغیر میں ہندو اور مسلمان دہائیوں سے ساتھ رہتے آئے لیکن اب مسلمانوں کی علیحدہ ریاست کے لئے ضروری سمجھا گیا کہ ہندو اور دیگر مذاہب کے لوگوں کے خلاف تعصب کو فروغ دیا جائے۔ ایک مخصوص تنگ نظر ذہنیت کو پاکستان کی شناخت بنانے کا کام شروع ہوا۔ملک کو ایک نظریاتی مملکت قرار دیا گیا، جسکی پہچان اسلامی ہوگی اور اس کے لئے لازمی ہوگا کہ وہ بھارت کو اپنا ازلی دشمن تصور کرے۔ یہی ملک میں حب الوطنی کا پیمانہ ٹھہرا۔

تقسیم ہند کے وقت پاکستان کے حصے میں انگریزوں کے ماتحت چلنے والی فوج کا 33 فیصد حصہ اور برصغیر کی لگ بھگ 19فیصد آبادی آئی۔ یوں آبادی اور وسائل کی تقسیم کے اعتبار سے ہمیں انگریز سے ورثے میں ضرورت سے زیادہ بڑی فوج ملی۔ اس فوج کی شمالی کمانڈ کا مرکز راولپنڈی میں تھا۔ اس کی اکثریت پنجاب کے مارشل بیلٹ یا پشتوں علاقوں سے تھی۔ یوں قیام پاکستان کے وقت فوج اس نوزائیدہ ملک کا سب سے طاقتور اور منظم ادارہ تھا۔

فوج کی سینئر قیادت نے جلد ہی خود کو اس بات پر قائل کرلیا کہ اس ملک کے سیاستدانوں میں ملک کے ساتھ مخلصی اور اسے چلانے کی قابلیت نہیں اور یہ بیڑا بھی افواج پاکستان کو اٹھانا پڑے گا۔ سول ملٹری بیوروکریسی کی طرف سے محلاتی سازشوں کو فروغ دیا گیا اور ملک کے پہلے گیارہ برسوں میں سات وزرائے اعظم آتے جاتے رہے۔ سیاسی عدم استحکام آخرکار 1958 میں پہلے مارشل لا پر ختم ہوا۔ یہ روش دہرائی جاتی رہی۔ بار بار مارشل لا لگتے رہے، اور ہر بار سیاستدانوں کی مبینہ نااہلی اور کرپشن کو اسکا جواز بنایا گیا۔

گذرتے برسوں میں ، پاکستان کے مسائل گمبھیر سے گمبھیر ہوتے چلے گئے۔ سن اکہتر میں 9 ماہ کی خوریزی کے بعد مشرقی پاکستان بنگلادیش بن کر ابھرا۔ ملک میں مذہبی جنون اور فرقہ واریت کو ریاستی سطح پر فروغ دیا گیا۔ جہاد کو خارجہ پالیسی کا حصہ بنایا گیا۔ پاکستان اپنے پڑوسی ملکوں کے ساتھ امن قائم کرنے کی بجائے مسلسل حالت جنگ میں رہنے پر مجبور ہوا اورجنگ و جدل کا کاروبار ملک کو اندر سے کھوکھلا کرتا چلا گیا ۔

ہم قوم کو بتاتے رہے کہ ملک کو خطرہ ہمارے اپنے اعمال سے نہیں، بیرونی قوتوں سے ہے جو ہمیں برباد کرنے کے درپے ہیں۔ ہم نے قوم کو اس خوف میں جکڑے رکھا کہ ہمیں صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے امریکہ سے لیکر اسرائیل تک اور افغانستان سے بھارت تک، سبھی ہمارے دشمن ہیں۔ اس سوچ نے ہمیں اقوام عالم میں قدرے تنہا کیا۔ ہم کشکول توڑنے کے نعرے لگاتے رہے لیکن معاشی طورپر امریکا، آئی ایم ایف ، عالمی بینک اور اب چین کےقرضوں پر انحصار کر رہے ہیں ۔ ہمیں اپنی دفاعی ضروریات کے لئے امریکا سے ڈالر اور ہتھیار لینے میں کبھی ہچکچاہٹ نہیں ہوئی لیکن ہم اکثر اسے اپنے مسائل کا ذمہ دار قراردیتے رہے۔ کشمیر پر ہمارا موقف ہو یا افغانستان پر، ہمارے نقطہ نظر پر دنیا کا اعتبار کم سے کم ہوتا چلا گیا۔

اکہتر سال میں یہ ملک ایک مثالی فلاحی ملک بن سکتا تھا، جہاں ہم اپنے لوگوں کو صحت اور تعلیم کا حق دے سکتے تھے، جہاں مذہبی اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ ہوتا، قانون کی حکمرانی ہوتی، ادارے اپنے دائرے میں رہ کر کام کرتے، جمہوری عمل کو پھلنے پھولنے دیا جاتا تو شاید دنیا ہمیں دہشتگروں کی پشت پناہی کے طعنے نہ دیتی، ہمیں دوغلہ اور کرپٹ نہ سمجھتی۔

ملکوں کی تاریخ میں بڑے بڑے سانحات ہوجاتے ہیں لیکن وہ ان سے سیکھ کر آگے بڑھتے ہیں۔ جرمنی کو دیکھ لیں۔ جاپان کو دیکھ لیں۔ ان ملکوں نےدوسری جنگ عظیم جنگیں ہارنے اور تباہی بربادی کے بعد کس طرح اپنی اصلاح کی – کس طرح انہوں نے جنگ و جدل کو خیرآباد کہا اور اپنے لوگوں کی معاشی ترقی میں لگ گئے اور آج کہاں کھڑے ہیں۔ ہمارے لئے اب بھی دیر نہیں ہوئی اگر ہم دوسروں سے کچھ سیکھ لیں اور اپنی اصلاح کر لیں۔

The post پاکستان کب بنا؟ appeared first on دنیا اردو بلاگ.



from دنیا اردو بلاگ https://ift.tt/2vP0zDx

No comments:

Post a Comment

May or later: Rocket Lab may launch a small probe to Venus

By Unknown Author from NYT Science https://ift.tt/OPbFfny