Sunday, September 30, 2018

وائٹ ہاؤس کے چند دلچسپ حقائق

1600 پینسلوینیا ایونیو پر واقع 220 سال پرانی یہ عمارت اپنی تعمیر سے لے کر آج تک دنیا کی اہم ترین اور غیر معمولی عمارتوں میں سے ایک گردانی جاتی ہے۔ اس کی اہمیت وخصوصیت اس کے طرز تعمیر کی وجہ سے نہیں بلکہ اس حیثیت کے باعث ہے جو اسے حاصل ہے۔

جی ہاں، یہ وائٹ ہاؤس ہے جسے ’’صدارتی محل‘‘ یا ’’ایگزیکٹو مینشن‘‘ بھی کہا جاتا ہے اور یہاں معنوی اعتبار سے دنیا کا طاقتور ترین فرد یعنی امریکہ کا صدر رہائش پذیر ہوتا ہے۔ یہ تو وہ حقائق ہیں کہ جو آج تقریباً ہر پڑھا لکھا شخص جانتا ہے، تاہم اس عمارت کے متعلق چند دلچسپ باتیں ایسی بھی ہیں جو شاید سب لوگوں کے علم میں نہ ہوں۔ آئیے آپ کو ان سے آگاہ کرتے ہیں۔

-1 جارج واشنگٹن اس میں کبھی بھی نہیں رہے :۔ موجودہ امریکہ کے بانی اور پہلے صدر جارج واشنگٹن نے اس جگہ کو یعنی وائٹ ہاؤس جہاں یہ آج واقع ہے، 1791ء میں صدارتی محل کی تعمیر کے لیے منتخب کیا اور اس کے حتمی ڈیزائن کی منظوری دی۔ 13 اکتوبر 1792ء کو اس کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور اس کی تعمیر کا آغاز ہوگیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صدر واشنگٹن جن کی مدت صدارت 1797ء میں ختم ہوئی اور وہ 1799ء میں وفات پاگئے، کو یہ موقع ہی نہ مل سکا کہ وہ اس صدارتی محل میں قیام کرسکیں۔ 1800ء میں دوسرے امریکی صدر جون ایڈمز اپنی بیگم ’’ابیجیل‘‘(Abigail) کے ساتھ نامکمل وائٹ ہاؤس میں منتقل ہوگئے اور یوں وہ پہلے امریکی صدر تھے جو وائٹ ہاؤس میں رہائش پذیر ہوئے۔ وائٹ ہاؤس کی عمارت اور ملحقہ باغات 18 ایکڑز پر پھیلے ہوئے ہیں۔

-2 یہ عمارت کافی وسیع و عریض ہے :۔ گو وائٹ ہاؤس کی عمارت آج کل کی دیگر عمارتوں کے مقابلے میں زیادہ بڑی تو نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ امریکی خانہ جنگی کے بعد تک بھی ملک کی سب سے بڑی عمارت تھی۔ اس میں 132 کمرے، چھ منزلوں میں 35 غسل خانے، 412 دروازے، 147 کھڑکیاں، 28 آتش دان، 8 سیڑھیاں اور 3 لفٹس ہیں۔ یہ عمارت 168 فٹ لمبی اور 85 فٹ چوڑی (بیرونی برآمدوں کے علاوہ) جبکہ جنوبی سمت سے 70 فٹ اونچی اور شمالی جانب سے 60 فٹ 4 انچ اونچی ہے۔

-3 برطانوی فوج کی طرف سے لگائی گئی آگ :۔ 1812ء کی برطانیہ امریکہ جنگ کے دوران 1814ء میں برطانوی فوج نے وائٹ ہاؤس پر چڑھائی کردی۔ اس حملے میں انہوں نے وائٹ ہاؤس کو نظر آتش کردیا۔ انہوں نے یہ کارروائی امریکی فوجیوں کی جانب سے کینیڈا کے صوبے ’’اونٹاریو‘‘ (Ontario) کے شہر ’’یارک‘‘ (York) میں عمارتوں کو آگ لگانے پر بدلہ لینے کے لیے کی تھی۔ آگ نے وائٹ ہاؤس کے اندرونی حصے اور چھت کو مکمل طور پر تباہ کردیا۔ امریکی صدر ’’جیمز میڈیسن‘‘ (James Madison) نے وائٹ ہاؤس کے اصل ڈیزائنر ’’جیمز ہوبان‘‘ (James Hoban) کو طلب کرکے عمارت کی فوری تعمیر نو کا حکم دیا۔ بدقسمتی سے صدر میڈیسن اور ان کی بیگم دوبارہ کبھی وائٹ ہاؤس میں آ کر نہیں رہ سکے۔ البتہ تعمیر نو کا کام مقررہ مدت میں مکمل ہوگیا اور 1817ء میں نئے منتخب صدر ’’جیمز مونروے‘‘ (James Monroe) وہاں منتقل ہوگئے۔

-4 1901ء تک اس کا کوئی سرکاری نام نہ تھا :۔ وائٹ ہاؤس گو کہ 1800ء سے تمام ہی امریکی صدور کی سرکاری رہائش گاہ رہا ہے مگر اس کو وائٹ ہاؤس کا نام 1901ء میں صدر ’’تھیوڈرر روز ویلیٹ‘‘ (Theodore Roosevelt) نے اپنی سرکاری دستاویزات میں دیا۔ اس سے قبل اسے ’’پریذیڈنٹ ہاؤس‘‘ یا ’’پریذیڈنٹ منشن‘‘ کہا جاتا تھا۔ کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اسے وائٹ ہاؤس کا نام اس وقت دیا گیا جب آگ لگنے کے بعد دھویں سے کالی ہوجانے والی دیواروں پر سفید پینٹ کیا گیا۔ تاہم بیشتر تاریخ دان اس نظریے سے اتفاق نہیں کرتے۔

-5 عورتوں کا حق رائے دہی کے حصول کے لیے دو سال تک احتجاج :۔ 10 جنوری 1917ء کو صدر ’’وڈو ولسن‘‘ (Woodrow Wilson) کی صدارت شروع ہونے کے ساتھ ہی عورتوں کے ایک گروہ جو ’’دی سائلینٹ سینٹینلز‘‘ The Silent Sentinels (خاموش محافظ) کہلاتا تھا، نے وائٹ ہاؤس کے گیٹ کے سامنے احتجاج کا آغاز کیا۔ ’’نیشنل وومن پارٹی‘‘ کی نمائندگی کرنے والے عورتوں کے اس گروہ کا مطالبہ تھا کہ عورتوں کو بھی ووٹ کا حق دیا جائے۔ یاد رہے کہ اس وقت تک بھی امریکہ میں عورتوں کو حق رائے دہی حاصل نہ تھا۔ ان عورتوں نے اپنے مطالبے کی منظوری تک وہاں سے ہٹنے اور احتجاج موخر کرنے سے انکار کردیا۔ یہ گروہ وائٹ ہاؤس کے سامنے اڑھائی برس تک مسلسل موجود رہ کر احتجاج کرتا رہا۔ اس دوران انہیں متعدد بار ہراساں کیا گیا، ان کے ساتھ انتہائی برا سلوک اور بدتمیزی روا رکھی گئی۔ یہاں تک کہ انہیں زدوکوب بھی کیا گیا۔ لیکن وہ اپنی دھن کی پکی ثابت ہوئیں۔ بالآخر 4 جون 1919ء کو 19 ویں آئینی ترمیم کے پاس ہونے پر عورتوں کو رائے دہی کا حق مل گیا۔

-6 آسیب زدہ ہونے کی افواہیں :۔ امریکہ کے بہت سے صدور، ان کی بیگمات، عملے کے افراد اور مہمانوں نے مبینہ طور پر بھوتوں کو متعدد بار اس تاریخی عمارت کے کمروں میں منڈلاتے ہوئے دیکھا۔ 1789-97ء میں پہلے امریکی نائب صدر اور 1797-1801ء میں دوسرے امریکی صدر رہنے والے صدر جون ایڈمنٹر کی اہلیہ ’’ابیگیل ایڈمز‘‘ (Abigail Adms) کا بھوت وائٹ ہاؤس کے مشرقی کمرے میں دیکھا گیا جہاں وہ اپنے دھلے ہوئے کپڑے لٹکایا کرتی تھیں۔

مشہور امریکی صدر ابراہم لنکن کی اہلیہ ’’میری ٹوڈ لنکن‘‘ (Mary Todd Lincoln) نے اپنے دوستوں کو بتایا تھا کہ انہوں نے 7 ویں صدر اینڈریو جیکسن کی غصیلے لہجے میں گالیاں دینے اور زور زور سے پاؤں پٹخنے کی آوازیں وائٹ ہاؤس کے کئی ہال کمروں میں سنیں۔ تاہم ان میں سب سے زیادہ شہرت خود صدر ابراہم لنکن ہی کے بھوت کو ملی جس کو دیکھنے کا دعویٰ 30 ویں صدر ’’کیلوین کولیج‘‘ (Calvin Coolidge) صدر جونسن اور صدر روز ویلٹ کی بیگمات نے کیا اور تو اور دوسری جنگ عظیم میں وہائٹ ہاؤس کے قیام کے دوران برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل کو بھی ابراہم لنکن کا بھوت دیکھنے کا ’شرف‘ حاصل ہوا۔

-7 پالتو ریچھ، شیر کے بچے اور دیگر جنگلی جانور :۔ اگرچہ بہت سے امریکی صدور نے وائٹ ہاؤس میں پالتو جانور، جیسے کتے بلیاں وغیرہ رکھے لیکن کئی صدور نے اس سے آگے بڑھ کر ایسے جانور بھی وہاں پالے جو عام پالتو جانوروں میں شمار نہیں کیے جاتے اور فارم ہاؤسز میں رکھے جانے والے جانور تصور ہوتے ہیں۔ تاہم چند صدور تو اس سے بھی آگے جاکر جنگل کے جانوروں کو بھی وائٹ ہاؤس میں لے آئے۔ مشہور امریکی صدر جون ایف کینڈی پالتو جانوروں کے زیادہ ہی دلدادہ تھے۔ ان کے دور صدارت میں وہائٹ ہاؤس کے گراؤنڈز مختلف انواع کے پرندوں، ہامسٹرز Hamsters (چوہے جیسا ایک جانور)، خرگوشوں، کتوں، بلیوں اور گھوڑوں سے بھرے رہتے تھے۔ صدر تھامس جیفرسن نے وائٹ ہاؤس میں ریچھ کے دو بچے رکھے ہوئے تھے۔

امریکہ کے 8 ویں صدر ’’مارٹن وین برن‘‘ نے وائٹ ہاؤس میں شیر کے بچوں کا جوڑا پالا ہوا تھا جو انہیں اومان کے سلطان نے تحفے میں دیا تھا۔ کانگریس نے صدر مارٹن کو مجبور کیا کہ وہ اس جوڑے کو چڑیا گھر میں بھیج دیں کیونکہ وہ نجی نہیں بلکہ ایک سرکاری تحفہ تھا (ہمارے لیے یہ غور طلب بات ہے کہ ہمارے حکمران غیر ملکوں سے ملنے والے تحائف کو ذاتی سمجھ کر اپنے ساتھ گھر لے جاتے ہیں)۔ صدر ولیم ہنری ہیریسن نے ایک بکرا اور ایک گائے وائٹ ہاؤس میں رکھی ہوئی تھیں جبکہ صدر ’’جیمس بچانن‘‘ کے پاس امریکہ کے مشہور گنجے عقابوں کا جوڑا اور کتے کے بچوں، پونی گھوڑوں اور مچھلیوں کا پورا غول موجود تھا۔ صدر گرور کلیولینڈ کو مرغ بانی کا شوق تھا اور وہ اپنا یہ شوق وائٹ ہاؤس میں بھی پورا کرتے تھے۔

-8 وائٹ ہاؤس کے لیے ٹنوں پینٹ درکار ہوتا ہے :۔ دوسری تمام تاریخی عمارتوں کی ہی طرح وائٹ ہاؤس کو جاذب نظر بنائے رکھنے کے لیے مرمت و تزین و آرائش کا کام چلتا رہتا ہے۔ تاہم دوسرے گھروں کے برخلاف وائٹ ہاؤس کے بیرونی حصے کو پینٹ کرنے کے لیے تقریباً 3 ٹن سفید پینٹ درکار ہوتا ہے جس میں سے 300 گیلن پینٹ عمارت کے رہائشی حصے کو پینٹ کرنے میں استعمال ہوتا ہے۔ 1992ء میں جب وائٹ ہاؤس کی تزین نو کی گئی تو اس کی بیرونی دیواروں پر سے رنگ کی قریباً 30 پرتیں اتاری گئیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ایسے تو وائٹ ہاؤس کو سالانہ بنیادوں پر پینٹ کیا جاتا ہے، البتہ ہلکی پھلکی لیپا پوتی تو سارا سال ہی جاری رہتی ہے۔

-9 کیا وائٹ ہاؤس کے نیچے خفیہ کمانڈ سینٹر موجود ہے؟ 2010ء میں تعمیراتی عملے نے وائٹ ہاؤس کے مشرقی حصے کے سامنے واقع گراؤنڈ میں ایک بہت بڑا گڑھا کھودنا شروع کیا۔ اس دوران اس حصے کو سبز رنگ کی باڑ سے ڈھانپ دیا گیا تھا تاکہ یہاں ہونے والے تعمیراتی کام کو خفیہ رکھا جاسکے۔ دو سال بعد یہ باڑ ہٹا دی گئی اور زمین کی سطح دوبارہ ہموار کرکے پختہ کردی گئی۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے یہاں کچھ کام ہوا ہی نہیں۔ سرکاری طور پر بتایا گیا کہ یہ تعمیراتی کام مشرقی حصے میں موجود زیر زمین سہولیاتی مشینری جیسے ایئرکنڈیشنگ اور سیوریج سسٹم کی مرمت اور بحالی کے سلسلے میں کیا گیا تھا مگر کنکریٹ سے لدے درجنوں بھاری بھرکم ٹرکوں کی آمدورفت اور بڑے بڑے شہتیروں کے یہاں لائے جانے نے معاملے کو متجسس شہریوں کے لیے مشکوک بنا دیا اور طرح طرح کی باتیں پھیلنے لگیں۔ کہا جاتا ہے کہ وائٹ ہاؤس میں زیر زمین خفیہ کمانڈ سینٹر بنانے کا منصوبہ 50 برس قبل بنایا گیا تھا جو آخر کار اب روبہ عمل لایا گیا۔

-10 وائٹ ہاؤس میں ہونے والے بدتہذیبی کے واقعات :۔ جدید دور میں امریکہ کے نئے آنے والے اور سبکدوش ہونے والے صدور کے درمیان اقتدار کی منتقلی کا عمل نہایت پرسکون اور باوقار رہا ہے اور حالیہ برسوں میں سابق ہوجانے والے چند صدور نے انتہائی پر امن طریقے سے وائٹ ہاؤس کو خیر باد کہا۔ تاہم تاریخ میں ایسا بھی ہوا کہ رخصت ہونے والے کچھ صدور نے نئے صدر کے ساتھ بات چیت تک سے گریز کیا۔ اس کی ایک مثال 1932ء میں صدر ہوور اور روز ویلٹ کے مابین دیکھنے میں آئی۔

البتہ کئی جانے والی حکومتوں نے آنے والی انتظامیہ کے ساتھ بے ضرر قسم کے مذاق ضرور کیے۔ خاص طور 2001ء میں جب جارج بش کی انتظامیہ اقتدار سنبھالنے لگی تو بظاہر بل کلنٹن کے عملے نے وائٹ ہاؤس کو 20 ہزار ڈالرز کا نقصان پہنچایا۔ انہوں نے 30 تا 60 کمپیوٹرز کے کی بورڈز‘‘ میں سے ”W” کے حروف کے بٹن نکال کر وائٹ ہاؤس کی دیواروں پر مختلف جگہوں پر چسپاں کردیئے۔ علاوہ ازیں مبینہ طور پر انہوں نے دروازوں کی نابیں چوری کرلیں، میزوں کی درازیں گوند لگا کر چپکا دیں اور قریباً 100 ٹیلی فون لائنز ڈائیورٹ کردیں تاکہ ان پر آنے والی کالز دوسرے نمبروں پر منتقل ہوجائیں اور نئے عملے کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑے۔

-11 وائٹ ہاؤس میں کل وقتی 3000 سے زائد لوگ کام کرتے ہیں :۔ جب سبکدوش ہونے والا کوئی امریکی صدر وائٹ ہاؤس سے رخصت ہوتا ہے تو وہ اپنا عملہ بھی ساتھ لے جاتا ہے تاکہ آنے والا نیا صدر اپنی مرضی کا عملہ تعینات کرسکے۔ مگر یک مشت 3 ہزار 3 سو کل وقتی اہلکار بھرتی کرنا کوئی کھیل نہیں ہے۔ ان میں وہ لوگ شامل نہیں جو وہاں جزوقتی کام کرتے ہیں یا وہ لوگ جن کی ملازمت تو وائٹ ہاؤس میں ہی ہوتی ہے لیکن ان کے دفاتر وائٹ ہاؤس سے باہر ہوتے ہیں۔ وائٹ ہاؤس کے صرف دفتر ہی میں 500 افراد ملازم ہوتے ہیں۔ نائب صدر کے دفتر میں 100، فوجی دفتر میں 1300 اور مینجمنٹ اینڈ بجٹ کے دفتر میں تقریباً 500 لوگ جبکہ 500 سے زائد خفیہ اہلکار اور 200 افراد صدر کی حفاظت پر مامور ہوتے ہیں۔

-12 وائٹ ہاؤس کا اصلی سنگ بنیاد غائب ہوگیا :۔ وائٹ ہاؤس کے اسراروں میں سب سے زیادہ نمایاں اور قابل ذکر اس کے اصلی سنگ بنیاد کا غائب ہوجانا ہے۔ 1792ء میں اپنے نصب کیے جانے کے محض 24 گھنٹے بعد ہی وائٹ ہاؤس کا سنگ بنیاد اور کندہ کی ہوئی پیتل کی پلیٹ غائب ہوگئی اور اس کے بعد آج تک کسی نے انھیں نہیں دیکھا۔ وائٹ ہاؤس کی تعمیر کا کام کرنے والے راج مستریوں نے اس کے غیاب سے خود کو بری ذمہ قرار دیا۔ متعدد صدور جن میں ’’روز ویلیٹ اور ٹرومین‘‘ شامل ہیں، نے اس کو تلاش کروانے کی کوششیں کیں مگر ناکام رہے اور یہ کوششیں لاحاصل اور بے سود رہیں۔ ایک روایت یہ ہے کہ یہ سنگ بنیاد وائٹ ہاؤس کے ’’روزگارڈن‘‘ کی دو سنگی دیواروں کے درمیان چھپا ہوا ہے تاہم اس بات کی آج تک تصدیق نہیں ہوسکی۔

The post وائٹ ہاؤس کے چند دلچسپ حقائق appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2zFualp

No comments:

Post a Comment

May or later: Rocket Lab may launch a small probe to Venus

By Unknown Author from NYT Science https://ift.tt/OPbFfny