Sunday, September 30, 2018

انسانوں کی حیوانیت کے ہاتھوں مٹتے جانور

کینیا کے علاقے اوسیوان میں دو شیر کئی ہفتوں سے مویشیوں اور بھیڑ بکریوں کوخوراک بنارہے تھے۔ نقصان اٹھاتے اٹھاتے ماسائی قبیلے کے چرواہوں کی ہمت جواب دے چکی تھی۔

گزشتہ دسمبر میں ماسائیوں نے کینیا وائلڈ لائف سروس کو تنبیہہ کردی تھی کہ انھیں خونخوار درندوں سے نجات دلائی جائے بہ صورت دیگر وہ خود اس مسئلے کا حل تلاش کرلیں گے۔ اس سنگین مسئلے پر سوچ بچار کے لیے قبیلے میں کئی اجتماعات ہوچکے تھے۔ ایسے ہی ایک اجتماع میں نوجوان ماسائی جنگجُو سواہیلی نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر وائلڈ لائف سروس نے جلد ہی شیروں کا خاتمہ نہ کیا تو وہ خود انھیں ہلاک کر ڈالیں گے کیوں کہ ’ہم جانتے ہیں کہ شیر کو کیسے مارا جاتا ہے۔‘

سواہیلی کا اشارہ محض اپنے ترکش میں سجے تیروں کی جانب نہیں تھا بلکہ اس کی مراد قاتل زہر سے بھی تھی جسے اب گلہ بان اور چرواہے شیروں سے اپنے مویشیوں کی حفاظت کے لیے مؤثر ہتھیار کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ شیر کینیا کا قومی نشان و جانور ہے تاہم ماسائی چرواہے اسے قومی علامت کے طور پر نہیں بلکہ ایسے عفریت کے طور پر دیکھتے ہیں جو ان کے ذریعۂ معاش کو نگل جاتا ہے۔ کینیا وائلڈ لائف سروس شیروں کے تحفظ کے لیے سرگرم عمل ہے، تاہم مقامی باشندے اس کی قومی جانور کو نقصان نہ پہنچانے کی اپیلوں پر اب کان نہیں دھرتے۔

کینیتھ اولے ناشوو نے جو کینیا وائلڈ سروس سے بہ طور سنیئر وارڈن وابستہ ہیں، دیہاتیوں کے ہاتھوں شیروں کی ہلاکت کے بڑھتے ہوئے واقعات کے بعد فیصلہ کیا کہ قومی جانور کے تحفظ کے لیے انھیں اوسیوان میں امبوسیلی نیشنل پارک کے شمالی حصے سے، جہاں مویشیوں کی ہلاکتوں کے واقعات پیش آرہے تھے، ساؤ ویسٹ کے نیشنل پارک میں منتقل کردیا جائے جو اوسیوان سے زیادہ دور نہیں تھا، تاہم یہ مرحلہ آسان نہ ہوتا، اس کے لیے شیروں کو بے ہوش کرنا ضروری تھا۔ کرسمس سے ایک دن پہلے کی شام اولے ناشوو اور ان کے ساتھی رینجرز شیروں کے تحفظ کے لیے فعال ’ لائن گارجینز‘ نامی گروپ کے رکن لیوک مامائی کی ہمراہی میں ایک لینڈ کروزر میں سوار ہوکر جھاڑیوں کے درمیان نسبتاً کُھلی جگہ پر پہنچے اور گاڑی کا انجن بند کردیا۔ آسمان پر چاند روشن تھا اور اس کی چاندنی میں اردگرد کا منظر بڑی حد تک واضح تھا۔ کینیتھ اور اس کے ساتھی شیروں کی آمد کے منتظر تھے۔

مامائی نے جو ماسائی قبیلے کا فرد ہے، گاڑی کی چھت پر لاؤڈ اسپیکر رکھا، کچھ ہی لمحوں کے بعد شب کی تاریکی میں موت سے ہمکنار ہوتی گائے کے ڈکرانے کی آواز گونجنے لگی جسے نظرانداز کرنا شیر کے لیے ممکن نہیں۔ کینیتھ اور اس کی ٹیم کو زیادہ دیر انتظار کی زحمت نہیں اٹھانی پڑی۔ لب مرگ گائے کی صدا خاموش ہوئے پندرہ منٹ ہی گزرے تھے کہ دائیں جانب کی جھاڑیوں سے ایک بڑے چوپائے کا ہیولا نکلتا ہوا دکھائی دیا۔ یہ ایک شیرنی تھی۔ وہ گاڑی سے دس گز کے فاصلے پر آکر رُک گئی اور پھر محتاط انداز میں ایک پستہ قامت درخت کی جانب بڑھنے لگی جس کی شاخوں سے مامائی نے بکری کی آلائشیں لٹکا دی تھیں۔ اولے ناشوو نے دوسری لینڈکروزر میں بیٹھے ہوئے ایک شخص کو اشارہ کیا جو ہاتھوں میں ڈارٹ رائفل (بے ہوشی کی برچھی فائر کرنے والی بندوق) تھامے ہوئے تھا۔

چند ہی لمحوں بعد اولے ناشوو اپنے آدمیوں کو بے ہوش شیرنی پنجرے میں منتقل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے ایک کام یاب مشن کی تکمیل پر ساتھیوں کو مبارک باد پیش کررہا تھا۔ اوولے کا کہنا تھا کہ دو شیرنیوں میں سے ایک کی ’گرفتاری‘ سے شیروں کی جوڑی کو زک پہنچے گی اور دونوں بھائی مویشیوں کو نشانہ بنانا چھوڑ دیں گے۔ اوولے کا یہ دعویٰ بہ ظاہر عجیب و غریب تھا کیوں کہ دونوں شیر آزاد تھے اور ان کے منہ کو خون لگ چکا تھا۔

رات خاصی گزر چکی تھی۔ میں اور میرا رہبر اور شکاری پرندوں کا ماہر سائمن تھامسیٹ، اس کی لینڈکروزر میں سونے کی سعی کررہے تھے جب غراہٹ کی آوازیں ہمارے کانوں سے ٹکرائیں۔ بہ تدریج یہ آوازیں قریب آتی چلی گئیں۔ اندازہ ہوا کہ یہ غراہٹیں دو شیروں کی تھیں جو ممکنہ طور پر شیرنی کو کھوج رہے تھے۔ ڈارٹ گن کی مدد سے ایک شیر کو پکڑ لیا گیا جب کہ دوسرا بچ نکلا۔ پکڑے گئے شیر اور شیرنی کو بعدازاں ساؤ ویسٹ کے نیشنل پارک میں چھوڑ دیا گیا۔ سابقہ تجربات کی بنیاد پر اندازہ تھا کہ ممکنہ طور پر دونوں درندے زندہ نہیں رہ پائے ہوں گے کیوں کہ پہلے سے موجود شیروں نے انھیں اپنا ساتھی نہیں بلکہ درانداز تصور کیا ہوگا اور اس کا نتیجہ عموماً نوواردوں کی پُرتشدد موت کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔

کے ڈبلیو ایس کے شعبہ ویٹرنری خدمات کے سربراہ فرانسس گاکو نے جوکینیا میں جنگلی حیوانات کی بہبود کے ذمے دار ہیں، شیروں کو آزاد کرنے کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا،’’ہم انھیں دوسرا موقع دینا چاہتے ہیں۔‘‘ تاہم فرانسس کے برعکس شیروں کے کئی ماہرین کا یقین ہے کہ شیروں کو نئے مسکن میں منتقل کرنے کے بجائے انھیں دیکھتے ہی ہلاک کردینا انسانیت کے زیادہ قریب ہوتا۔

اسی دوران وارڈن کی سوچ کے برخلاف بچ جانے والے شیر نے مویشیوں کو خوراک بنانے کا سلسلہ جاری رکھا، تاہم اس بار گلہ بانوں نے، جو ممکنہ طور پر مقامی نہیں تھے، بیرونی مدد طلب نہیں کی۔ انھوں نے مُردہ بکری اور گائے پر زہریلے کیمیکل چھڑک دیے۔ شیر اور شیرنی نے جب ان مُردہ جانوروں کے گوشت سے شکم سیری کی تو زہرخورانی کا شکار ہوکر جان سے چلے گئے۔ جب اس واقعے کی اطلاع کے ڈبلیو ایس کو ہوئی اور وہاں سے تحقیقات کے لیے ویٹرنیرین ( جانوروں کا ڈاکٹر) بھیجا گیا، اس وقت تک شیروں کی نعشیں گل سڑ چکی تھیں۔

ویٹرنیرین کو ’جائے وقوعہ‘ پر لگڑبھگڑ اور گدھ کی باقیات بھی نظر آئیں جو یقیناً مُردہ مویشیوں کا زہرآلود کھانے کے باعث ہلاک ہوئے تھے۔ کینیا میں یہ مناظر عام ہوچکے ہیں۔ بدقسمتی سے ویٹرنیرین نے جانچ کے لیے مُردہ مویشیوں اور شیروں کے نمونے حاصل نہیں کیے تھے حالاں کہ کئی قسم کے زہر ایسے ہیں جو طویل عرصے تک متأثرہ جانوروں کی باقیات میں موجود رہ سکتے ہیں۔ لہٰذا یہ معلوم نہیں ہوسکتا تھا کہ شیروں کو ہلاک کرنے کے لیے کون سا زہر استعمال کیا گیا تھا، جو اس کا علم رکھتے تھے وہ ممکنہ طور پر اس بارے میں بات کرنے سے انکاری ہوتے۔

کینیا اور افریقا بھر میں چھوٹے جانوروں کو بہ غرض حصول خوراک، ہاتھیوں اور گینڈوں کو ان کے سینگ، اور دیگر جانوروں کو ادویہ میں ان کے اعضا کی ضرورت کی وجہ سے زہر دے کر مار دینے کا رواج عام ہوچکا ہے، یہ واضح نہیں ہے کہ انسانی صحت پر زہر کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ زہر کے استعمال کی ایک اور تکلیف دہ صورت انسان اور جنگلی جانوروں کے مابین ٹھن جانے کے بعد سامنے آتی ہے جب کوئی شیر یا لگڑ بھگڑ مویشیوں کو نشانہ بناتا ہے، یا پھر کوئی ہاتھی جب ان کی فصلوں اور املاک کو نقصان پہنچاتا ہے۔ زہر کی یہ قسم کیڑے مار زہر پر مشتمل ہوتی ہے کیوں کہ حشرات کُش زہر ارزاں قیمت پر اور عام مل جاتے ہیں نیز مہلک بھی ہوتے ہیں۔

گاکویا اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ زہر کا استعمال ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے، اور اوسیوان کی صورت حال سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ ہنوز حل طلب ہے۔

مزاحمت کے طور پر زہر دینے کے واقعات کہیں بھی کسی بھی لمحے پیش آسکتے ہیں مگر اکثر اس کے شواہد من گھڑت اور نامکمل ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود کینیا کی جنگلی حیات کی نگرانی کرنے والے ماہرین حیاتیات، کینیا والڈ لائف سروس کے ملازمین اور جنگلی حیاتیات کے تحفظ کے ادارے اس بات پر متفق ہیں کہ زہر دینے کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے کیوں کہ انسانوں اور جنگلی حیات کے مابین تصادم بڑھ رہا ہے۔

کینیا کے محفوظ علاقے بشمول جنوب کا ماسائی مارا، امبوسیلی، ساوو ویسٹ اور ساوو ایسٹ پارک، سب کے سب محاصرے میں ہیں۔ شاہراہوں، ریلوے لائنوں، بجلی گھروں کی تعمیر اور بھاری صنعتوں، ہائی ٹیک سینٹرز اور وسعت پذیر شہروں کو بجلی کی فراہمی کے لیے ٹرانسمیشن لائنوں کا پھیلتا ہوا جال محفوظ علاقوں کے گرد گھیرا تنگ کرتا جارہا ہے۔ کینیا کی آبادی جس کی ضروریات کے لیے مقامی وسائل پہلے ہی ناکافی ہوچکے ہیں، 2050ء تک متوقع طور پر دُگنی ( آٹھ کروڑ ) ہوجائے گی۔ بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ اراضی کو زیرکاشت لایا جارہا ہے، جس کے نتیجے میں جانوروں کی نقل وحرکت محدود تر ہوتی جارہی ہے۔ ہاتھی جیسے بڑے ممالیہ کے صورت حال خاص طور سے مخدوش ہے جو موسم میں تبدیلی کے ساتھ غذا اور پانی کی تلاش اور افزائش نسل کے لیے ایک سے دوسرے علاقے کی طرف ہجرت کرتے ہیں۔

شیر کینیا کا قومی جانور ہے مگر اب ان کی تعداد دو ہزار سے بھی کم رہ گئی ہے جو پانچ عشرے قبل بیس ہزار تھی۔ علاوہ ازیں 90 فی صد شیر اپنے اصل مسکن یا علاقوں سے غائب ہوچکے ہیں۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ آئندہ بیس برسوں میں کینیا میں شیروں کی تعداد اتنی رہ جائے گی جتنی چڑیا گھروں میں ہوتی ہے اور وہ چڑیا گھر جیسے ہی حالات میں رہنے پر مجبور ہوں گے۔ شیروں کو زہر دے کر مارنے کا ہر واقعہ کینیا کو جنگلی حیات کی تصویر کشی کرنے والے معروف فوٹوگرافر پیٹر بیئرڈ کے بہ قول ’اینڈ آگ دی گیم‘ کے قریب لے جارہا ہے۔

دنیا بھر میں زمانۂ قدیم سے جانوروں کے شکار اور دشمنوں کو ہلاک کرنے کے لیے زہر کا استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ مشرقی افریقا میں  Acocantheraنامی درخت میں ایسا کیمیائی مرکب پایا جاتا ہے جس کی معمولی مقدار ایک بڑے ممالیہ کے دل کو ناکارہ کردینے کے لیے کافی ہے، یہ زہر صدیوں سے مقبول ہے۔ کچھ عشروں سےحشرات کش زہر بھی جانوروں کی ہلاکت کے لیے استعمال ہونے لگے ہیں۔

اس کا آغاز 1980ء کی دہائی میں ہوا تھا جب براعظم افریقا میں آبادی تیزی سے بڑھنے لگی تھی اور اسی مناسبت سے سَر چھپانے کے لیے چھت اور پیٹ بھرنے کے لیے خوراک کے حصول کی مسابقت میں بھی تیزی آتی گئی۔ زمین داروں اور گلہ بانوں پر انکشاف ہوا کہ حملہ آوروں (شیر، تیندوا، چیتا، جنگلی کتے، گیدڑ ) مردار خوروں (بھیڑیے، گدھ) اور فصلوں کو نقصان پہنچانے والے جانوروں (ہاتھی، کچھ اقسام کے پرندے ) کو ہلاک کرنے کے لیے حشرات کش زہر کا بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ کچھ علاقوں میں لوگ ان ہلاکت خیز مرکبات کو بطخوں اور مرغابیوں وغیرہ کا شکار کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ بطخیں بعدازاں فروخت کردی جاتی ہیں جن کا گوشت خریداروں کی خوراک بنتا ہے۔

زہر دینے کے واقعات کی روک تھام کے لیے قومی سطح پر ایک تحریک اس وقت شروع ہوئی جب مشرقی افریقا کی قدیم ترین نیچرل ہسٹری آرگنائزیشن، نیچر کینیا پر انکشاف ہوا کہ شمالی علاقوں میں کسان شیروں کو حشرات کش زہر کی مدد سے ہلاک کررہے ہیں۔ نیچر کینیا کی برڈ کمیٹی میں شامل ڈیرسی اوگاڈا نے اس مسئلے کی وسعت کا اندازہ کرنے کے لیے رضاکارانہ طور پر سروے ڈیزائن کیے اور ان کی نگرانی کی۔ سروے کرنے کے لیے انھوں نے مارٹن اوڈینو نامی ایک پُرجوش ماہر طیوریات کی خدمات حاصل کیں۔

سروے کے لیے انھوں نے جن مقامات کا انتخاب کیا ان میں سے ایک مغربی کینیا میں جھیل وکٹوریا کے کنارے بنیالا کا علاقہ تھا جہاں دور تک دھان کے کھیت پھیلے ہوئے تھے۔ غیرسرکاری اطلاعات کے مطابق یہاں کاشت کار فیوراڈان 5G نامی حشرات کش زہر کے ذریعے پرندوں کو ہلاک کررہے تھے۔ فیوراڈان 5G ارغوانی رنگ کا دانے دار کیمیائی مرکب ہے جسے امریکا کی ریاست فلاڈلفیا میں قائم ایک کمپنی ایف ایم سی تیار کرتی ہے۔ اس حشرات کُش زہر میں کاربوفوران نامی ایک مرکب بھی شامل ہے۔ یہ اتنا زہریلا ہوتا ہے کہ کینیڈا، یورپی یونین، آسٹریلیا اور چین میں اس کے استعمال پر پابندی ہے یا پھر اس کا استعمال انتہائی محدود ہے۔ امریکا میں خوردنی فصلوں پر اس کے استعمال کی ممانعت ہے، اس کے باوجود کینیا میں اس کی درآمد کی اجازت ہے۔ کینیا میں اس زہر کی درآمد کا اجازت نامہ جوانکو گروپ کے پاس ہے جس کا مرکزی دفتر نیروبی میں واقع ہے۔

بنیالا کے علاقے میں پہلے دورے پر اوڈینو نے دیکھا کہ زرعی ادویہ کی دکانوں پر فیوراڈان 5G عام دستیاب تھا اور کوئی بھی اسے خرید سکتا تھا۔ انھوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ شکاری چاول اور گھونگھوں پر اس زہر کا چھڑکاؤ کرکے انھیں بطخوں اور ایک قسم کے بگلے کا شکار کرنے کے لیے استعمال کررہے تھے جو ان اشیاء کو اپنی خوراک بناتے ہیں۔ جانور ہزاروں کی تعداد میں مر رہے تھے۔ شکاری ، مُردہ پرندے مقامی باشندوں کو فروخت کردیتے تھے، جن کا خیال تھا کہ اگر گوشت کو اچھی طرح پکالیا جائے تو وہ زہریلے اثرات سے تقریباً پاک ہوجاتا ہے۔ پرندوں کے زہریلے گوشت سے بنا سوپ پینے والے کئی اشخاص نے اوڈینو کو بتایا کہ سوپ پینے کے بعد انھیں گھٹنوں میں کمزوری کا احساس ہوتا ہے، یہ علامت ایک ایسے مرکب کی ہے جو دماغی خلیوں کی سرگرمیوں پر اثرانداز ہوسکتا ہے۔ تاہم اب تک اس ضمن میں کوئی تحقیق نہیں کی گئی۔

اوگاڈا نے اپنی حاصل کردہ معلومات ’’والڈ لائف ڈائریکٹ‘‘ کی چیف ایگزیکٹیو آفیسر پاؤلا کاہومبو کو پیش کیں جو کینیا میں قدرتی وسائل کے تحفظ کی سب سے بااثر حامی ہیں، انھیں بھی مختلف علاقوں سے اسی نوع کے واقعات کے بارے میں خبریں مل رہی تھیں۔ کاہومبو نے اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے ایک ٹاسک فورس تشکیل دی۔ اس کا پہلا اجلاس اپریل 2008 میں ہوا۔ اوگاڈا کے مطابق یہ ایک کام یاب اجلاس تھا، کیوں کہ پہلی بار قدرتی وسائل کے تحفظ کے حامی ایک ہی کمرے میں بیٹھ کر اس اہم مسئلے پر تبادلۂ خیال کررہے تھے۔ کاہومبو جانتی تھی کہ سنگین صورت حال کے باوجود حکومت کو اس اس کیمیکل کی درآمد پر پابندی کے لیے راضی کرنا آسان نہیں ہوگا جس پر کینیا کی وسعت پذیر زراعتی صنعت کا دارومدار تھا۔ کاہومبو کہتی ہیں کہ ابھی تک اس کیمیکل کا سستا اور اتنا ہی مؤثرمتبادل دستیاب نہیں ہوسکا تھا۔

زہر کی مدد سے جنگلی حیات کی ہلاکت کو عالمی توجہ 2009ء میں اس وقت حاصل ہوئی جب امریکی ٹیلی ویژن چینل سی بی ایس کے پروگرام میں کینیا میں فیوراڈان  5G کے ذریعے شیروں کی ہلاکت اور اس کیمیائی مرکب کی دست یابی پر ایک جامع رپورٹ نشر کی گئی۔ بعدازاں فیوراڈان 5Gبنانے والی کمپنی نے کینیا میں اپنی مصنوعہ مارکیٹ سے اٹھالی اور عوام الناس سے اس زہریلے مرکب کی بوتلیں واپس خریدنے کی اسکیم بھی چلائی۔ یہ حکمت عملی ایک حد تک کام یاب رہی کیوںکہ 2010ء کے بعد سے زرعی ادویہ کی دکانوں پر فیوراڈان 5G فروخت نہیں ہوئی، لیکن کاربوفیوران اب بھی عام دست یاب ہے۔

کبھی کبھار فیوراڈان افریقا ہی کے بعض علاقوں سے کینیا تک پہنچنے میں کام یاب ہوجاتی ہے۔ تاہم فیوراڈان کی بندش کے بعد اب مارکیٹ میں نقلی فیوراڈان موجود ہے، علاوہ ازیںکاربوفیوران سے بنی چینی اور بھارتی مصنوعات بھی بیچی جارہی ہیں۔ ایف ایم سی کی تیارکردہ گلابی رنگ کی ایک اور مصنوعہ جو ’’مارشل‘‘ کہلاتی ہے، بھی حملہ آور جانوروں کو ہلاک کرنے کے لیے مُردہ جانوروں پر چھڑکی جارہی ہے۔ مارشل میں کاربوسلفان نامی مرکب شامل ہے جو کم ارتکاز پر کاربوفیوران میں ٹوٹ جاتا ہے۔

اس کے باوجود یہ بے حد زہریلا ہوتا ہے۔ کاہومبو، اوڈینو، اوگاڈا اور دوسروں کی کوششوں کے باوجود کینیا کی حکومت نے ہنوز کاربوفیوران پر پابندی عائد نہیں کی۔ صدر اہورو کینیاٹا کی پہلی ترجیح فوڈ سیکیورٹی ہے اور کینیا کی مسلسل بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر اس زہریلے مرکب کی درآمد پر پابندی مشکل دکھائی دیتی ہے۔ آبادی میں اضافے کا مطلب ہے خوراک کی بڑھتی ہوئی طلب، اور اس طلب کو پورا کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ اراضی کو زیرکاشت لانا ناگزیر ہے، اور پھر اسی مناسبت نباتات اور حشرات کش زہر کا استعمال بھی وسیع ہوتا چلا جائے گا، چناں چہ ان پر پابندی کا امکان بہ ظاہر دور دور تک نظر نہیں آرہا۔

ایف ایم سی کمپنی کی ترجمان کوری اینے ناٹولی نے ای میل کے جواب میں لکھا کہ پہلی بار ہم نے ’’مارشل‘‘ کے غلط استعمال کے بارے میں سنا ہے، کمپنی اس دعوے کی تحقیقات کررہی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایف ایم سی کینیا میں فیورڈان کی دست یابی کے ضمن میں کوئی ذمے داری قبول نہیں کرتی۔

کینیا کی مارکیٹ کے فیوراڈان کے اٹھائے جانے کے بعد بھی حشرات کش زہر کا استعمال اسی طرح کیا جارہا تھا۔ دسمبر 2015ء میں یہ مسئلہ ایک بار پھر اس وقت اجاگر ہوا جب ایک شیر اور دو شیرنیوں پر مشتمل گروپ موت کا شکار ہوا۔ کینیا میں یہ شہر بے حد مقبول تھے اور ’’ مارش پرائڈ‘‘ کہلاتے تھے۔ مقبولیت کے پیش نظر انھیں بی بی سی ٹیلی وژن کی سیریز سیریز ’’ بگ کیٹ ڈائری‘‘ میں بھی پیش کیا گیا تھا۔ دسمبر 2015ء کے ابتدائی ہفتے میں ان درندوں نے ماسائی مارا کی حدود میں کئی مویشی ہلاک کردیے۔

جواباً گلہ بانوں نے ایک جانور کی لاش پر زہر کا چھڑکاؤ کردیا۔ نتیجتاً ایک شیرنی موقع ہی پر ہلاک ہوگئی، دوسری جو زہرخوانی کے باعث بے حد لاغر ہوگئی تھی اسے لگڑ بگڑوں نے شکار کرلیا۔ زہریلے اثرات کے سبب نقاہت اور کمزوری کا شکار ہونے والے شیر کو بھینسوں نے روند ڈالا۔ معذوری کا شکار ہوجانے والے شیر کو اذیت سے نجات دلانے کے لیے کینیا وائلڈ سروس کے عملے کو اسے زہر دینا پڑا۔ شیروں کے پوسٹ مارٹم سے ان کے جسم میں کاربوسلفان کی موجودگی کا انکشاف ہوا۔

جنگلی حیات کے لیے محفوظ قرار دیے گئے علاقوں کی سرحدیں جانوروں کے لیے خطرناک بن چکی ہیں تاہم بڑے اور زیادہ متحرک رہنے والے جانوروں کے لیے مارا ریجن کا مشرقی حصہ سب سے زیادہ خطرناک ہے۔ محفوظ علاقے کے اطراف گلہ بانی زوروں پر ہے، اور مویشیوں کے ریوڑ اور باڑوں کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے، اس کے نتیجے میں کھلے میدان سکڑتے جارہے ہیں، چناں چہ ماسائی کے گڈریے اور گلہ بان بالخصوص خشک سالی کے دوران مویشیوں کو چرانے کے لیے محفوظ علاقے کی حدود میں لے آتے ہیں۔ حتیٰ کہ ہزاروں گائے بھینسیں شیروں کے مسکن میں چلتی پھرتی نظر آنے لگتی ہیں۔ شیر کو دھیمی چال چلنے اور موٹ عقل والا شکار زیادہ پسند ہوتا ہے، چناں چہ وہ مویشیوں پر حملہ آور ہوجاتا ہے۔ ایسے ملک میں جہاں بندوقوں کا قانونی طور پر حصول مشکل ہے، وہاں زہر اور زہریلے تیر ہی گلہ بانوں کا ہتھیار ٹھہرتے ہیں جن سے شیروں اور دوسرے حملہ آور جانوروں کا شکار کیا جاتا ہے۔

اس حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے کہ شکار کے اس رجحان، جانوروں کے خلاف تشدد کو ختم یا محدود کرنا مقامی لوگوں کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں، کچھ غیرسرکاری تنظیموں (این جی اوز) نے ایم نئی حکمت عملی اپنائی ہے جس میں جانوروں کے تحفظ کی کوششوں میں مقامی آبادی کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔

کچھ معروف این جی اوز اسی طرح کی حکمت عملیوں سے کام لے رہی ہیں۔ ان حکمت عملیوں میں زیبرا اور اسی جسامت کے جانوروں کو دستی آہنی پھندوں سے بچانے کے لیے گشت کرنا، مویشیوں کی ہلاکت کی صورت میں مالکان کے نقصان کی تلافی کرنا، اور رات میں جانوروں کو بند کرنے کے لیے مضبوط چوبی اور جالی کی باڑ لگا ہوا احاطہ تعمیر کرنا ہے۔ 2010ء سے اینے کینٹ ٹیلر فنڈ نامی این جی او نے مارا ریجن میں 800 احاطے تعمیر کیے ہیں۔ اس کے نتیجے میں مویشیوں پر درندوں کے حملوں میں کمی آئی ہے، بہ الفاظ دیگر اس علاقے میں شیروں کو زہر دینے کا جواز قریب قریب ختم ہوگیا ہے۔

این جی اوز کی سب سے کام یاب حکمت عملی مقامی رہائشیوں کو بہ طور رینجرز، تصفیہ کار، اور جنگلی حیات کا محافظ بھرتی کرنا ہے۔ بگ لائف نامی این جی او کے شریک بانی اور افریقا میں ڈائریکٹر آپریشنز رچرڈ بونہم کہتے ہیں کہ جنگلی حیات کی تنظیم کاری دراصل لوگوں کی تنظیم کاری ہے۔

جنگلی حیات کو زہر کا شکار ہونے سے بچانے میں ناکامی کا ذمہ دار بہ آسانی کینیا وائلڈ لائف سروس کو ٹھہرایا جاسکتا ہے، اور کچھ لوگ اسے موردالزام ٹھہراتے بھی ہیں۔ میں نے جن علاقوں کا بھی سفر کیا وہاں نااہلی کے واقعات سُننے کو ملے؛ زہر کا شکار ہونے والے جانوروں کے نمونے حاصل نہیں کیے گیے، نمونے ضایع ہوگئے، نمونوں کی شناخت میں غلطیاں کی گئیں اور بے پروائی برتی گئی، نمونوں کی جانچ نہیں کی گئی، اور نہ ہی کبھی لیبارٹری سے جانچ کے نتائج موصول ہوپائے۔ زخمی جانوروں کا بروقت اور مناسب طور پر علاج نہ ہونے کی شکایات بھی موجود تھیں جو صحت یاب ہوسکتے تھے مگر موت کا شکار ہوگئے، علاوہ ازیں جائے وقوعہ پر ناقص تحقیقات، مربوط اور جامع معلومات کی کمی جیسے مسائل بھی موجود تھے جن کی بنیاد پر پالیسی اور طریقہ ہائے کار وضع کیے جاتے۔

تاہم مارا کنزروینسی کے سربراہ برائن ہیتھ کے مطابق یہ بھی حقیقت ہے کہ کینیا وائلڈ لائف سروس کو کئی بڑے مسائل کا سامنا ہے جس میں سب سے اہم فنڈز کی قلت ہے۔ علاوہ ازیں کیتھ کہتے ہیں کہ جنگلی حیات کا تحفظ حکومتی ترجیحات میں شامل نہیں، اسی لیے کے ڈبلیو ایس کے مقابلے میں ٹوارزم بورڈ کو زیادہ فنڈز دیے جاتے ہیں، حالاں کہ جنگلی حیاتیات اور خوب صورتی تفریحی مقامات جن کے تحفظ اور دیکھ بھال کی ذمے داری کے ڈبلیو ایس کے سپرد ہے، کے بغیر سیاحتی صنعت بیٹھ جائے گی۔

ملک کے بیشتر نیشنل پارکوں کو عملے کی کمی کا سامنا ہے اور دست یاب اہل کاروں کی اکثریت بھی مناسب تربیت یافتہ نہیں۔ ویٹرنری ڈاکٹر کام کے بوجھ سے لدے ہوتے ہیں، کیوں کہ قانون کے تحت انھیں انسانوں اور جانوروں کے مابین تصادم میں موخرالذکر کو پہنچنے والے ہر چھوٹے بڑے زخم کا علاج کرنا ہوتا ہے جس کی وجہ سے زہر دینے کے واقعات کے نتیجے میں جانوروں کی ہلاکتوں پر ضروری کارروائی کرنے میں تاخیر ہوجاتی ہے۔ کے ڈبلیو ایس کے اہل کار فرانسس گا کویا کہتے ہیں کہ یہ بڑی مایوس کن صورت حال ہے، بنیادی وسائل دستیاب نہیں ہیں، گاڑیاں بہت کم ہیں جن کے لیے اکثر اوقات ایندھن بھی مہیا نہیں ہوتا۔

اس قومی معمے کا ایک اور نظرانداز کردہ پہلو پولیس اور ججوں کا کردار ہے۔ ’مارش پرائڈ‘ کو زہر دینے کے الزام میں مارا کنزروینسی کے رینجرز نے دو مشتبہ افراد پکڑے تھے، مگر کوئی کیس درج کیے اور مقدمہ چلے بغیر ان کی ضمانت ہوگئی۔ اگرچہ ماضی کی نسبت اس نوع کے معاملات میں قانونی اور عدالتی کارروائی کی شرح بڑھ گئی ہے تاہم بیشتر ملزمان باعزت بری ہوجاتے ہیں۔ اسی لیے جنگلی جانوروں کو زہر دینے کے واقعات اسی طرح جاری ہیں۔ کاربوفیوران اگرچہ مقبول ہے تاہم اس کے علاوہ گھریلو تیارکردہ روایتی زہریلے مرکبات بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ رواں سال مسائی مارا میں ایک ہی واقعے میں چالیس کے لگ بھگ کرگس ہلاک ہوگے تھے۔ مشرقی ساوو میں ہاتھیوں کے شکاری زہریلے تیروں سے کام لیتے ہیں۔ گذشتہ برس پندرہ ہاتھی زہریلے تیروں کا شکار ہوئے تھے۔

کچلہ کے پودے سے حاصل کردہ زہریلا مرکب تنزانیہ سے کینیا میں موٹرسائیکل پر اسمگل کرنا بہت آسان ہے اور پھولوں کے کھیتوں( فلاور فارم) پر کام کرنے والا کوئی بھی کاشت کار یا ملازم نیا حشرات کش زہر مقامی بلیک مارکیٹ کو مہیا کرسکتا ہے۔ زہر تو زہر۔۔۔۔ حد تو یہ ہے کہ سیمنٹ بھی جنگلی حیات کو ہلاک کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ ایک ایسے ملک میں یہ کسی ستم ظریفی سے کم نہیں جہاں تعمیراتی سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ نیروبی کے قریب مجھے سمبا سیمنٹ کا بل بورڈ نظر آیا، یہ سیمنٹ مقامی طور پر تیار کی جاتی ہے۔ تشہیری بورڈ پر ببر شیر کا چہرہ دکھایا گیا تھا اور اس کے اوپر ’’کنگ آف دی کنکریٹ جنگل‘‘ کے الفاظ چھپے ہوئے تھے۔ شیروں کے تحفظ کے لیے اگر کچھ نہ کیا گیا تو پھر یہ جانور صرف تشہیری بورڈز ہی پر رہ جائے گا۔

ایک روز اینے کینٹ ٹیلر فنڈ کی شکار کی روک تھام کی گشتی ٹیم مجھے اپنے ہمراہ نیاکویری کے جنگل میں لے گئی۔ یہ جنگل ماسائی مارا کی حدود سے باہر سے باہر پہاڑی ڈھلوان پر واقع ہے۔ گشتی ٹیم کے نوجوان سربراہ ایلیس کمانڈے نے مجھے وسیع و عریض قطعہ ارض دکھایا جہاں جا بہ جا درختوں کے تنے اور شاخیں بکھری ہوئی تھیں۔ کمانڈے نے بتایا کہ یہ علاقہ کچھ عرصہ قبل تک ہاتھیوں کی نرسری کے طور پر استعمال ہورہا تھا، جہاں دو سو ہتھنیاں بہ یک وقت بچے جنتی تھیں۔

یہ علاقہ کچھ عرصہ قبل تک گھنے جنگل کا منظر پیش کرتا تھا مگر اب اس پر سے درختوں کا صفایا ہوچکا تھا۔ اس قطعۂ ارض کا رقبہ فٹبال کے چار میدانوں کے مساوی تو یقیناً تھا۔ کمانڈے نے بتایا کہ جنگل میں درختوں سے خالی ایسے قطعہ ارض کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اور درختوں کے اس قتل عام کے پس پردہ کوئلے کی صنعت کے کرتا دھرتا ہیں۔ کمانڈے نے اداس لہجے میں مجھ سے کہا کہ پانچ سال کے بعد یہاں اس جنگل کے بجائے انسانی آبادیاں، فصلیں، مویشی اور باڑے ہوں گے۔ اس کے نتیجے میں یہاں سے ہاتھی، شیر، زرافے، لگڑبھگڑ اور دوسرے جانور ختم ہوجائیں گے، جو آج مارا ٹرائی اینگل اور اس ڈھلوانی جنگل کے درمیان آزادانہ نقل و حرکت کرتے ہیں۔

کینیا کے پاس اب بھی جنگلی حیات کے مساکن کو بچانے کا وقت ہے۔ اگر حکومت نے سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مؤثر اقدامات نہ کیے تو ایک وقت ایسا آئے گا جب نباتات اور حشرات کش زہر کسی تشویش کا باعث نہیں رہیں گے۔۔۔۔۔۔۔ ظاہر ہے جب جنگلی جانور ہی باقی نہیں رہیں گے تو زہر کسے دیا جائے گا!

The post انسانوں کی حیوانیت کے ہاتھوں مٹتے جانور appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2QohqVR

No comments:

Post a Comment

May or later: Rocket Lab may launch a small probe to Venus

By Unknown Author from NYT Science https://ift.tt/OPbFfny