Wednesday, November 21, 2018

تھر میں خودکشیاں اور بڑھتی ہوئی بے حسی

بڑھتی ہوئی بے حسی کی تاریخ بھی طویل ہوتی جارہی ہے۔ گزرتا ہوا ہر لمحہ اپنے پیچھے کوئی نہ کوئی المیہ چھوڑ جاتا ہے۔ اب تو وادی مہران کے نہ وہ حالات باقی ہیں جن میں محبت کی مایا تھی، نہ وہ خلوص جو دل کو جیت لیتا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ بڑھتی ہوئی بے حسی نے خلوص کو دھیما کردیا ہے۔ نہ وہ جذبات کی سچائی ہے نہ عقیدت کا آنگن جس میں ہمارے احساس کسی بچے کی طرح کھیلا کرتے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ بہت کچھ بدلتا جارہا ہے، گزرتے ہوئے لمحے دل پر درد کی ایسی تحریر رقم کر جاتے ہیں جو ہمارا من کبھی بھی بھول نہیں پائے گا۔ ماضی کو دیکھیں تو ہمارے دل میں آج بھی وہ ھمیر موجود ہے جس نے مجبوری کے ہاتھوں مات کھا کر خودکشی کی تھی۔ نہ تو وہ ھمیر سومرو تھا جس نے دودو سومرو کے بعد سلطنت سنبھالی، اور نہ ہی وہ کسی بااثر کے گھر میں جنم لینے والا کوئی لاڈلا بچہ تھا۔

وہ تو صحرائے تھر کا مفلس ھمیر ساند تھا جو غربت کے عالم میں اپنی زندگی سے منہ موڑ کر چلا گیا۔ بس پیچھے رہ گیا ماتم، وہ ماتم جو سارا گاؤں کرتا رہا۔ ھمیر نے ایسا کیوں کیا؟ یہ بھی ایسا سوال ہے جیسا کوئی بچہ کسی سے پوچھے کہ دنیا گول کیوں ہے۔ ھمیر نے بھی خوشی سے خود کو نہیں مارا بلکہ اس نے مقروض زندگی سے نجات پانے کےلیے خودکشی کی تھی۔ اپنے آپ کو موت کے حوالے کرنے والا ھمیر اپنے گاؤں کی گلیوں میں سوچکا مگر اس کے ورثاء کے پاس وہ لوگ نہ آئے جو الیکشن کے وقت وعدے کیا کرتے تھے۔

ساری انسانیت کو دہلادینے والے ماتم کے یہ مناظر نہ تو ایوان میں بیٹھے ان لوگوں کو نظر آئے جو ان مفلس لوگوں کے طفیل مسند نشین ہوئے ہیں اور نہ ہی وہ ارباب آیا جو اس خطے کی سیاست پر ہمیشہ راج کرتا رہا ہے۔ مفلس لوگوں کے پاس وہ بھی تو نہ پہنچ پائے جو ہر مسئلے پر سندھ کی صدائیں بنتے آئے ہیں۔ ھمیر کی قبر کی مٹی بھی کب کی خشک ہوچکی مگر اس کے بچوں کے آنسو نہیں سوکھے۔
ویسے بھی دیکھا جائے تو اس دیس میں اپنے آپ کو مارنے کا رواج کوئی نیا نہیں، یہاں ہرروز مزدور مرتا ہے؛ کسی کارخانے کا ایندھن بنتا ہے اور اسی ایندھن پر دیس کا پہیہ چلتا ہے۔ وطن کے مفلس لوگ ایسی زندگی جیا کرتے ہیں جس کا شاید ہی کسی نے تصور کیا ہو۔ تھر میں خودکشی کے واقعات اب اس لیے بھی بڑھ رہے ہیں کہ غربت کے عالم میں جینے کے سارے اسباب بھی ختم ہوتے جارہے ہیں۔ تھر میں خشک سالی بڑھتی جا رہی ہے۔ اب تو یہ عالم ہے کہ مفلس لوگوں کو پینے کا پانی بھی میسر نہیں، کھانے کی اشیاء کی قلت بھی اپنی جگہ، مگر جو حکمرانوں کے دل میں رحم و کرم کی قلت ہوئی ہے، وہ تو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔

تھر میں پانی کی قلت تو شروع سے ہی رہی ہے مگر اس خطے کا زوال کب شروع ہوا؟ اس سوال کے جواب میں بہت ساری باتیں آج بھی گردش کرتی ہیں۔ دیکھا جائے تو اس خطے کا زوال تب سے شروع ہوا ہے جب سے لوگوں نے کھیت اگانے کی کوشش کی۔ اسی کوشش میں انہوں نے نہ صرف بیل چلائے بلکہ یہاں ٹریکٹر بھی لائے گئے۔ ٹریکٹر کا پہیہ کیا گھوما، تھر میں ہونے والی جڑی بوٹیوں کی جڑیں بھی ختم ہوگئیں۔ بیوفا بادل بھی صحرائے تھر سے منہ موڑ کر چلے گئے، بارشیں نہ ہوئیں تو تھر کے باسی بھی روزگار کی تلاش میں نقل مکانی کرنے لگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے گاؤں کسی ویران جزیرے کی صورت اختیار کرتے گئے۔ بھوک میں بدحال ہوتے ہوئے لوگ اپنے کاندھوں پر معصوم بچوں کی لاشیں اٹھاتے رہے۔ بڑی باتیں ہوئی مگر عملی طرح کچھ نہ ہو پایا۔ سرکاری گندم بھی گوداموں کی نذر ہوگئی۔ منرل واٹر کی بوتلیں بھی اسٹوروں پر فروخت ہوتی رہیں، ہمارے وچن کی گندم افغانستان تک تو پہنچی مگر تھر تک نہ آئی۔

یہ خطہ سراپا درد بنتا گیا… اب تو یہ عالم ہے کہ لوگ خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں۔ دو برس پہلے کی تو بات ہے جب اسلام کوٹ کے ایک گاؤں کے باسیوں نے زھریلی جڑی بوٹی سے روٹی کھائی تھی اور ایک خاندان کے سارے لوگ بیہوش ہوگئے تھے۔

اسپتال سے علاج کے بعد وہ سب تو ٹھیک ہوگئے مگر ان کی بے بسی نے درد کی ایسی تاریخ رقم کی جو اہلِ دل لوگ کبھی بھول نہیں پائیں گے۔ بے حسی کی انتہا صرف یہ نہیں کہ لوگ مرجاتے ہیں، بلکہ بے حسی کی انتہا یہ بھی ہے کہ معصوم لوگوں کے درد بانٹنے بھی کوئی نہیں آتا۔

مفلسی کے مارے لوگ غمِ روزگار میں اپنا شہر تو کیا گھر بھی چھوڑ آتے ہیں۔ تھر میں جب خشک سالی ہوتی ہے تو اس خطے کے لوگ سندھ کے دوسرے شہروں میں آباد ہوتے ہیں۔ دل تو وہ واقعہ بھی نہیں بھولا جب سانگھڑ کے نزدیک ایک زمیندار نے ایک کسان کو بیدردی سے قتل کر دیا تھا۔ مقتول ہیرو بھیل بھی صحرائے تھر سے آیا تھا۔ اس کے تصور میں بھی نہیں تھا کہ وہ اس طرح بے موت مارا جائے گا۔ پولیس قاتلوں کو تو گرفتار نہ کرسکی لیکن بے حسی کا یہ عجیب عالم تھا کہ مقتول کے لواحقین تین دن تک پیرومل تھانے کے باہر لاش رکھ کر احتجاج کرتے رہے تھے۔ تین دن تک کوئی سیاستدان تو نہ آیا لیکن علاقے کا ایس ایس پی بھی تسلی دینے نہ پہنچا۔ اقلیتی ممبران بھی اس صورتحال سے لاعلم بنے رہے۔ بس علاقے کے چند لوگ دکھ کے لمحات میں مقتول کے ورثاء سے درد بانٹتے رہے، تین دن تک انصاف کےلیے لاش رکھ کر احتجاج کرنے کے بعد مقتول کے ورثاء اپنے گاؤں واپس چلے گئے۔ سچ تو یہ ہے کہ ان لمحات میں احتجاج کرنے والوں کی حالت بالکل ایسی تھی کہ:

حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
کوئی ٹھہرا نہیں حادثہ دیکھ کر

اپنے دُکھ چھپائے، تھر کے یہ لوگ اپنے کاندھوں پر لاش اُٹھا کر واپس لوٹ گئے مگر درد کی ایک ایسی لکیر بناگئے جو علاقے کے لوگوں سے سوال ضرور کرتی رہے گی۔ ممکن ہے کہ برسوں تک ان سوالوں کا جواب کوئی نہ دے پائے۔

نوشہرو فیروز میں خودسوزی کرنے والا وزیر راجپر شاید کسی کو یاد بھی نہ ہو۔ اسے تو بینک انتظامیہ نے مردہ قرار دے کر اُس کی پینشن بھی نکلوا لی تھی۔ شاید لوگ مزدوروں کے عالمی دن پر اپنے آپ کو آگ لگانے والے بدین کے اُس مزدور کو بھی بھول گئے ہوں گے جس نے جلتے ہوئے بھی مطالبہ کیا تھا کہ مجھے انصاف دلادو، لیکن اُسے انصاف نہ مِلا اور وہ جل کر راکھ بن گیا۔ اُس کی فریاد بھی عدالت کے کسی کونے میں رکھی فائل میں دب کر رہ گئی، اس کا کیس بھی نہ چل سکا، انسانی حقوق کےلیے کام کرنے والے لوگوں نے بھی آواز نہ اُٹھائی اور مقدمہ ماضی کا قصہ بن گیا۔

یہ تو دو چار واقعات تھے جو آپ کے سامنے رکھے لیکن حالیہ تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی بے حسی ختم کرکے ان لوگوں کے ساتھ ہمدردی کریں جو حالات سے مجبور ہوکر زندگی ختم کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ حکمرانوں کو بھی اپنے رویّے تبدیل کرنے ہوں گے۔ نہیں تو سندھ اور سارے ملک کو سنگین صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔

رحم دلی کی تاریخ رقم کرنے والی سرزمینِ سندھ پر بڑھتی ہوئی بے حسی ہم لوگوں سے بھی بہت سارے سوالات کرتی ہے؛ مگر کیا کریں کہ جس سماج میں احساس ردی کے کاغذ کی طرح اُچھالے جائیں، جہاں لوگوں سے زیادہ ان کے عہدوں کو اہمیت ملتی ہو، وہاں کسی مفلس کو بھلا کہاں جواب ملے گا؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post تھر میں خودکشیاں اور بڑھتی ہوئی بے حسی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2S3iSh2

No comments:

Post a Comment

May or later: Rocket Lab may launch a small probe to Venus

By Unknown Author from NYT Science https://ift.tt/OPbFfny