ہمارے ملک کا نظام دوسرے ممالک سے کچھ ہٹ کر ہے۔ ہمارے ہاں جس مقصد کیلئے آگاہی مہم کا آغاز کیا جاتا ہے مہم میں اس بات کو چھپا کر رکھا جاتا ہے۔ کچھ چیزیں ایسی ہیں جہاں آگاہی مہم سے زیادہ ادارے کے ملازمین کو اس بات پر آمادہ کرنا اہم ہے کہ ان کی بھی کچھ ذمہ داری ہے، وہاں ہم بڑھ چڑھ کرآگاہی مہم چلاتے ہیں۔ مثال کے طور پر میونسپل کارپوریشن کے افراد صفائی کے نظام کو بہتر بنانے سے زیادہ بینر اٹھائے عوام میں صفائی کا شعور بیدار کرنے میں زیادہ مشغول ہیں۔ملک میں صفائی کا نظام زیادہ بہتر ہوسکتا تھا اگر میونسپل کارپوریشن کے ملازمین صفائی پر توجہ دیں اور اسکولوں کالجوں میں معلم بچوں میں صفائی کے متعلق شعور پیدار کریں۔ آبادی پر قابو پانے کے خواہش مند حضرات نے اس حوالے سے ایک بہترین نغمہ بنا کر نشر کردیا ،ہر گاڑی ہر گھر میں ایک وقت میں یہ نغمہ گنگنایا جاتا لیکن اس دور کی معصوم نسل کو اس نغمے کا مطلب معلوم نہ ہوتا ہاں اتنا اندازہ ضرور تھا کہ بڑوں کے سامنے یہ نغمہ گنگنایا تو جھاڑ ضرور پڑے گی۔اسی طرح کئی سالوں سے ٹیلی ویژن پر تشہیر کی جارہی ہے کہ ایڈز لاعلاج ہے اور احتیاط واحد علاج ہے لیکن یہ احتیاط کیا ہے آج تک کسی نے اپنے چھوٹوں کو نہ بتایا۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے صحت کا کہنا ہے کہ ایڈز کا مرض دنیا بھر میں صحت کا ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے اب تک ساڑھے تین کروڑ افراد متاثر ہو چکے ہیں۔صرف گذشتہ برس ایک کروڑ افراد ایڈز کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے گئے۔اب بھی تقریباً تین کروڑ ستر لاکھ افراد ایسے ہیں جو اس وائرس کا شکار ہیں، ان میں سے 70 فیصد افریقہ میں موجود ہیں۔ پاکستان جیسا ملک جہاں پولیو کیخلاف اس حد تک کام کیا جارہا ہے کہ ہر گھر ہر اسکول ہر مدرسے میں جاکر پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کو ویکسین پلائی جاتی ہے اور جو شخص اپنے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کی ویکسین پلانے سے انکار کرتا ہے اس کیخلاف مقدمہ درج کردیا جاتا ہے کیوں کہ پولیو کنٹرول کے ادارے یہ سمجھتے ہیں یہ ایک قومی مسئلہ ہے لیکن ایڈز کے مریضوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے اس پر قابو پانے کیلئے ایسا کوئی بھی سخت عمل سامنے نہیں آرہا۔
ملک بھر میں اس وقت ایڈز کے رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد 23 ہزار سے زیادہ ہے۔ یاد رہے کہ نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے مطابق ملک میں ایڈز کے شکار افراد کی تعداد 165000 ہے جبکہ ان میں سے صرف 23757 افراد نے متعقلہ سینٹر میں اپنے آپ کو رجسٹر کروایا ہے۔ قومی اسمبلی میں ایڈز کے مرض میں مبتلا افراد کی تعداد کے بارے میں ارکان کو بتایا گیا، جو تعداد پیش کی گئی اس میں صرف انہی افراد کا ذکر کیا گیا ہے جنھوں نے اپنی رجسٹریشن کروائی ہے۔جب کہ ایک خبر رساں ادارے کی تحقیق کے مطابق پاکستان میں ایڈز کے شکار افراد کی تعداد دیڑھ لاکھ سے بھی زیادہ ہے۔ یہ تعداد پولیو کے مریضوں سے کئی زیادہ ہے آخر اس مرض پہ قابو پانے کیلئے پولیو کنٹرول جیسے اقدامات کیوں نہیں اپنائے جا رہے ۔
ایڈز کے پھیلاؤ کے حوالے سے کچھ ایسی باتیں بھی لوگوں کہ ذہن میں موجود ہیں کہ یہ مرض ساتھ کھانا کھانے سے،ہاتھ ملانے سے یا ایک ہی فضا میں سانس لینے سے پھیلتا ہے جس کی وجہ سے ایک وقت تک ان مریضوں سے امتیازی سلوک برتا جاتا تھا۔ اب بھی معاشرے میں اس مرض کےشکار افراد کوکسی حد تک امتیازی سلوک کا سامنا ہے،ڈاکٹروں کے مطابق یہ سب باتیں درست نہیں ہیں۔ایڈز کی تین بنیادی وجوہات ہیں۔ایڈز کے مریض سے جنسی تعلق کے نتیجے میں ایڈز پھیل سکتا ہے۔متاثرہ شخص کے خون سے بھی ایڈز پھیل سکتا ہے جبکہ اس کی ایک بڑی وجہ استعمال شدہ سرنج یا انجکشن کا دوبارہ استعمال بھی ہے۔پاکستان میں کئی افراد انجکشن کی بدولت نشہ آور ادویات کا استعمال کرتے ہیں۔لہذا اس قسم کے نشے میں مبتلا افراد اس بیماری کا نشانہ بنتے ہیں۔بدقسمتی سے ملک میں اسلامی نظام نہ ہونے کی وجہ سے کئی افراد جنسی بے راہ روی کا شکار ہیں۔ اسی طرح ترقی کے اس دور میں ابھی بھی اسپتالوں میں مریضوں کو غیر تصدیق شدہ لیبارٹریوں سے حاصل کردہ خون لگا دیا جاتا ہے۔ایک اور تحقیق کے مطابق پاکستان میں چھوٹے کلینکس میں مریضوں کو 99فیصد غیر ضروری انجکشن لگایا جاتا ہے۔
حکومت کو سب سے پہلے اس حوالے سے ایک آگاہی مہم چلانا ہوگی جس میں اس بات پر زور دینا ہوگا کہ اس بیماری میں مبتلا افراد کوئی قومی مجرم نہیں نہ ہی یہ بیماری ساتھ بیٹھنے، کھانے یا ملنے سے پھیلتی ہے، لہذا اس بیماری کے شکار افراد سے امتیازی سلوک نہ کیا جائے۔جب ایسا ماحول پیدا ہوگا تو اس بیماری میں مبتلا غیر رجسٹرڈ افراد بھی اپنی رجسٹریشن کرا سکیں گے اور ان کا علاج کیا جائے گا۔ان میڈیکل اسٹوروں کیخلاف بھی پولیو کنٹرول جیسی مہم کا آغاز کیا جائے جو ڈاکٹروں کے نسخوں کے بغیر ایسی ادویات دے دیتے ہیں جو نشے کو طور پر استعمال ہوتی ہیں۔ کراچی جیسے شہر میں سڑکوں پر کئی افراد انجکشن کا نشہ کرتے نظر آتے ہیں، ان افراد کیخلاف بھی کریک ڈاؤن کرنا ہوگا اور ان کا علاج کرانا ہوگا۔ ملک میں موجود فحاشی کے اڈوں کا خاتمہ بھی اولین ترجیح ہونا چاہیے۔اگر اس بیماری کیخلاف سنجیدہ بنیادوں پر کام نہ کیا گیا تو یہ کئی قیمتی جانوں کو لہد تک لے جائے گی۔کپتان اور انکی ٹیم کو سوچنا ہوگا۔
The post تیزی سے پھیلتا ہوا مرض ایڈز appeared first on دنیا اردو بلاگ.
from دنیا اردو بلاگ http://bit.ly/2PUJssF
No comments:
Post a Comment