Monday, May 13, 2019

کیا کم عمری کی شادی پر پابندی جائز ہے؟

آج کل پاکستان کے ایوانوں میں کم عمری کی شادی پر پابندی لگانے کے بل پاس کیے جارہے ہیں لیکن مجھے پورا یقین ہے کہ نہ تو ان بل پیش کرنے والوں نے جانچ پڑتال یا تحقیق کرنے کی کوشش کی ہو گی اور نہ ہی بل کی حمایت میں ووٹ دینے والوں نے۔ یہی وجہ ہے کہ سنی سنائی باتوں پر کان دھرتے ہوئے اس بل کی حمایت میں آوازیں اٹھ رہی ہیں۔

کم عمری کی شادی جائز ہے یا ناجائز ؟ اس بابت کوئی حتمی نتیجہ نکالنے سے قبل چند ضروری سوالات کے جوابات دینا اشد ضروری ہیں۔ اس ضمن میں سب سے پہلا سوال یہ بنتا ہے کہ ایک لڑکے یا لڑکی کی شادی کے قابل ہونے کی صحیح عمر کیا ہے؟اس متعلق اگر ہم قدرت کی طرف دیکھیں تو ہمیں واضح جواب مل جاتا ہے کہ جب کوئی لڑکا باپ اور لڑکی ماں بننے کے قابل ہوجائے تو وہی شادی کی صحیح عمر ہے۔ کیونکہ مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا یہ کامل ایمان ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ جو کرتا ہے وہ درست کرتا ہے اور اس میں رتی برابر بھی جھول نہیں ہوسکتا۔

جس عمر میں ایک بچی حاملہ ہونے کی حیثیت حاصل کرسکتی ہے وہی اسکی شادی کی اصل عمر ہے ۔ لیکن یہاں بعض نام نہاد دانشور مغرب کی تقلید میں تنقید کرتے ہیں کہ بچی کی عمر اتنی کم ہوتی ہے کہ وہ اپنی دیکھ بھال صحیح طرح سے نہیں کرپاتی تو وہ بچے کی پرورش کیسے کرپائے گی؟ ایسے لوگوں کو سیدھا سا جواب یہ بنتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی پر اتنا بوجھ نہیں ڈالتا کہ اس سے اٹھایا نہ جاسکے۔ کوئی بھی کام خود سے نہیں آتا ، اسے باربار کرنے سے آتا ہے اور اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ ایک بچی کی اگر کم عمری میں شادی نہ کی جائے تو بیس ، بائیس یا پچیس سال کی عمر میں وہ اتنی سمجھ دار ہوجائے گی کہ بچے کی پرورش احسن طریقے سے کرسکے گی؟۔ جب تک اسے حاملہ عورت کی پچیدگیوں اور زچگی کی تکالیفوں کا تجربہ نہیں ہوگا اور بچے کو ماں کا دودھ پلانے کا تجربہ نہیں ہوگا وہ کیسے یہ تمام کام سیکھ پائے گی؟ اگر تجربے سے ہی یہ تمام کام سیکھے جاتے ہیں تو پھر یہ تجربہ کم عمری میں مانع کیوں ہوا؟

مغربی تہذیب کے پیروکار نام نہاد دانشور کم عمری کی شادی پر تنقید کرتے ہوئے دو سوال اٹھاتے ہیں۔ اول یہ کہ لڑکی اور لڑکے کی معاشی حیثیت کمزور ہوتی ہے ۔ دوم ، کم عمر بچی کا جسم اس قابل نہیں ہوتا کہ وہ حمل کی تکالیف کو احسن طریقے سے برداشت کرسکے۔ جہاں تک اول الذکر سوال کا تعلق ہے تو جس گھر میں ایک لڑکا پرورش پا رہا ہے وہاں ایک فرد یعنی بیوی کے آجانے سے کتنا خرچہ بڑھتا ہے؟مزید یہ کہ گھر میں نئی آنے والی اپنا رزق اپنے ساتھ لے کر آتی ہے۔ لہذا نام نہاد نقادوں کا یہ پوائنٹ وزن نہیں رکھتا۔ آخرالذکر سوال بچی کی جسمانی طاقت کے متعلق ہے تو جب اللہ تعالیٰ ایک بچی کو ماں بنانے کے قابل کردیتا ہے تو اسے حمل اور زچگی کی تکالیف برداشت کرنے کے قابل بھی بنا دیتا ہے۔ ہم فیصلہ کرنے والے کون ہوتے ہیں کہ کس عمر میں ایک بچی کو ماں بننا چاہیے کیونکہ یہ فیصلہ اس عظیم ہستی کے ہاتھ میں ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے کہ ایک بچی کو ماں کب بنانا ہے۔ لہذا ان دانشوروں کا دوسرا پوائنٹ بھی وزن نہیں رکھتا۔

چلئے تھوڑی دیر کے لئے مان لیتے ہیں کہ کم عمری کی شادی پر پابندی لگوانے کے حق میں دلائل دینے والوں کا موقف درست ہے ۔ اگر یہ مان لیا جائے تو پھر ایسے ممالک کا جائز ہ لینا پڑے گا جہاں کم عمری کی شادی پر پابندی نافذ ہے اور دیکھنا پڑے گا کہ آیا وہاں اس کےمثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں یا منفی؟تو جناب مغرب میں کم عمری کی شادی پر پابندی کے بل انیسوی صدی کے شروع میں ہی پاس ہونا شروع گئے تھے ۔ اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ آج ان ملکوں میں بچیاں بغیر شادی کے مائیں بن رہی ہیں، یعنی ناجائز اولا د پیدا ہورہی ہے جنکا کوئی والی وارث نہیں ہوتا اور انکو خیراتی اداروں کے سپرد کردیا جاتا ہے کہ انکی دیکھ بھال کی جائے۔ کیونکہ بغیر شادی کے جب کوئی لڑکا لڑکی ماں باپ بنتے ہیں تو ایسی صورت میں پیدا ہونے والی اولاد کو کوئی بھی اپنانے کی جسارت نہیں کرتا ۔ لہذا لڑکا اور لڑکی دونوں اپنی اپنی راہ اپناتے ہیں اور ناجائز بچے کو خیراتی اداروں کے حوالے کردیتے ہیں۔ ایسا ناجائز بچہ جب تمام عمر ماں باپ کی شفقت حاصل نہیں کرپاتا اور اسے جب یہ علم ہوتا ہے کہ وہ ایک ناجائز بچہ ہے تو وہ پھر اسی معاشرے سے اپنا انتقام لیتا ہے جہاں وہ پیدا ہوا تھا۔ لہذا ایسی صورت میں جرائم کی شرح بڑھ جاتی ہے۔

ایسے ملکوں میں کم عمری کی شادی پر پابندی لگانے کے کئی اور نقصانات سامنے آئے ہیں۔ مثلاََ مانع حمل دواؤں کی کثرت یا بچہ ضائع کرنے کے لئے آپریشن کروانا، کنواری ماؤں کی تعداد کا بڑھنا، خیراتی اداروں میں ناجائز اولادوں کی کثرت ہونا،خاندانی نظام جہاں لوگ مل جل کر رہتے ہیں اور ایک دوسرے کا دکھ درد بانٹتے ہیں کا تباہ و برباد ہوجانا۔ نکاح یا شادی کی رسم کا ناپید ہوجانا وغیرہ وغیر ،یہ سب مغربی ممالک میں کم عمری کی شادی پر پابندی لگانے کے ثمرات ہیں۔

اگر ہم بھی یہی چاہتے ہیں کہ کم عمری کی شادی پر پابندی لگانے سے پیدا ہونے والی برائیاں ہمارے معاشرے میں بھی در آئیں تو بسم اللہ کیجئے اور اسی مغربی راستے پر چلتے رہیے بصورت دیگر قدرت کے فیصلے پر راضی ہوجائیے کہ ایک لڑکے اور لڑکی کی شادی کی صحیح عمر کیا ہے۔ خدارا کم عمری کی شادی پر پابندی لگانے سے پہلے یہ بھی سروے کروالیں کہ کتنی بہنیں اور بیٹیاں رشتوں کے انتظا ر میں ماں باپ کے گھر میں بیٹھی بیٹھی بوڑھی ہورہی ہیں۔

The post کیا کم عمری کی شادی پر پابندی جائز ہے؟ appeared first on دنیا اردو بلاگ.



from دنیا اردو بلاگ http://bit.ly/2J9tMS7

No comments:

Post a Comment

May or later: Rocket Lab may launch a small probe to Venus

By Unknown Author from NYT Science https://ift.tt/OPbFfny