Sunday, May 19, 2019

افغانستان۔۔۔۔ ایک صدی کی کہانی

دنیا میں سولہویں صدی عیسوی سے شروع ہونے والاعالمی نوآبادیاتی نظام امریکہ کی دریافت کے بعد امریکہ کی آزادی، خودمختاری انقلاب فرانسِ نپولین کی جنگوں اور اس کے بعد امریکی خانہ جنگی سے ہو کر انیسویں صدی کے اختتام اور بیسویں صدی کے آغاز پر جنگِ عظیم اوّل ’’عالمی جنگ‘‘ کے قریب پہنچ رہا تھا۔

یورپ اور امریکہ میں پرانا جاگیردارانہ نظام سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ سرمایہ دارانہ اور صنعتی دور میں تبدیل ہو گیا تھا۔ سنٹرل بینکنگ سسٹم، اسٹاک ایکسچینج فروغ پا کر عالمی معاشیات اور اقتصادیات پر سرمایہ دارانہ نظام کو ظالمانہ قوت کے ساتھ پوری دنیا پر مسلط کر چکا تھا، لندن، نیویارک، پیرس اور ماسکو جیسے تہذیبی مراکز کہلانے والے صنعتی شہروں میں کو ئلے سے چلنے والے کارخانوں میں بچوں اورخواتین سے چودہ سے سولہ گھنٹے یومیہ مشقت نہایت کم معاوضے پر لی جاتی تھی.

یوں اس جنگِ عظیم اوّل سے قبل ہی ایک جانب مشرقی یورپ، چین، ہندوستان، روس اور دنیا کے دیگر آزاد اور نو آبادیا تی نظام میں جکڑے ہوئے ملکوں میں کارل مارکس اوراینجلز اشتراکیت کے نظریات، انقلابات سے قبل طوفان کی پہلی موجوں کی طرح ناکام بغاوتوں کی صورت ابھر رہے تھے، تو ساتھ ہی نو آبادیاتی قوتوں کے درمیان ملک ہوس گیری یعنی اب جن ملکوں کے پاس کم نو آبادیات تھیں وہ قوت کے بل پر بر طانیہ، فرانس، نیدر لینڈ، پرتگال، اٹلی، روس اور سپین سے مقبوضہ علاقے چھیننے کی کو ششوں میں تھے، پرانی دنیا کی تین بڑی قوتیں، روس، ترکی کی سلطنت عثمانیہ اور برطانیہ تھیں جب کہ فرانس، جرمنی، سپین اور جاپان بھی بڑی قو توں میں شمار ہوتے تھے۔

امریکہ جو کبھی برطانیہ اور کچھ رقبے کے اعتبار سے فرانس کی نو آبادی تھی اپنی آزادی اور خانہ جنگی کے بعد اب نئی دنیا کی ایک بڑی قوت بن چکا تھا، ہمارے ہاں برصغیر پر انگریزوں کا قبضہ مستحکم ہو چکا تھا اس کے استحکام کے مراحل میں برطانیہ کی خاص سیاست اور حکمت عملی شامل رہی تھی۔

انگریزوں کو ہندوستان کے اعتبار سے یہ احساس شروع سے تھا کہ ہندوستان پر ہمیشہ افغانستان کی جانب سے حملے ہو تے رہے ہیں، اس لیے اُن کی حکمت عملی یہ رہی کہ اس سے قبل کہ افغانستان سے کوئی حملہ ہو پہلے اُ س پر حملہ کر کے اُسے زیر نگیں کر لیا، اِ س کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ روس کے زار پال اوّل نے 1800ء میں کو شش کی تھی کہ نپولین کو اس پر آمادہ کیا جائے کہ وہ ہندوستان پر حملہ آور ہو تو روس اس طرف یعنی خیبر پختونخوا اور بلو چستان سے ہندوستان میں براستہ افغانستان حملہ کرے گا، لیکن خدا کا کرنا کہ 1812 ء میں نپولین نے ہی ماسکو پر حملہ کر دیا اور روسیوں نے سردی کے شدید ہو نے تک انتظار کیا اور فرانسیسی فوجوں کو روکے رکھا اور پھر ماسکو کو آگ لگا کر پیچھے ہٹ گئے اور نیپولین کی آدھی فوج سردی سے مر گئی۔

1838ء میں برطانیہ کی جانب سے ہندوستان میں تعینات گورنر جنرل آکلینڈ نے شملہ میں افغانستان پر حملے کو آخری شکل دی ے دی، اور اس منصوبے کو شملہ مینیفسٹو کا نام دیا گیا، یہ پہلی اینگلو افغان وار یعنی پہلی برطانوی افغان جنگ تھی جس میں انگر یزوں نے اپنے حامی اور جلاوطن افغان شاہ شجاع کی مختصر فوج کی مدد کی۔ اس جنگ میں پنجاب کے راجہ رنجیت سنگھ نے انگریزوں کی مدد کرتے ہو ئے ایک بڑی فوج کے ساتھ خیبر پختو نخوا کے راستے کابل پر حملہ کیا جبکہ انگریزوں کی21 ہزار ہندوستانی افواج بلوچستان سے ہوتی 28 جولائی 1839 ء میں غزنی پر قبضہ کرکے اگست میں کابل پہنچ گئیں اور شاہ شجاع کو تخت پر بٹھانے کے بعد سکھ فوج واپس ہو گئی ۔

افغانستان میں انگریزوں نے بارہ ہزار ہندوستانی فوج انگریز افسران کے ساتھ چھوڑی اور باقی فوج واپس ہو ئی، جب انگریز فوج کابل پر حملے کے لیے بلو چستان سے جا رہی تھی تو درہ بولان میں بلوچ قبائل نے گوریلا انداز کی جنگ میں اس فوج کو نقصان پہنچایا تھا، یوں واپسی میں انگریز فوج نے بلوچستان کے خان آف قلات میر محراب خان کواطاعت کا پیغام بھیجا جسے اِس غیرت مند بلوچ خان نے رد کر دیا اور جنگ کرتے ہو ئے شہادت کو ترجیح دی، افغانستان میں انگریز وں کے خلاف مزاحمت اُس وقت تیز ہو گئی جب انگریزوں نے اپنے فو جیوں کے حوصلے بلند رکھنے کے لیے اِن کے بیوی بچوں کو ہندوستان سے بلوا لیا، اِس کے منفی اثرات مرتب ہو ئے افغان یہ سمجھے کہ اب انگریز افغانستان میں مستقل قیام چاہتا ہے۔

1942 ء کے موسم سرما میں افغان مجاہدین نے انگریزوں کی فوج کے خلاف کاروائیاں تیز کردیں اورایسی شدید جنگ لڑی کہ انگریزوں کی تمام کی تمام بارہ ہزار فوج کو قتل کردیا اور صرف ایک انگریز ڈاکٹر ولیم برائڈن کو زندہ چھوڑا، مگر اِس کا ایک بڑا نقصان سنٹرل ایشیا کی آزاد اور خود مختار ریا ستوں کو ہوا جہاں روس کے زار سلطنت کی فوجیں آگے بڑھیں۔ 1842 ء سے پہلے روسی سرحد بحیرہ ایرال کی دوسری جانب تھی، پانچ سال بعد روس سنٹرل ایشیا میں دریائے آمو تک پہنچ گیا، 1863ء میں تاشقند پر قبضہ کر لیا اور 1873ء تک بخارہ پر بھی روس کا قبضہ ہو گیا۔

اب برصغیر میں انگریزوں کی گھبراہٹ بڑھنے لگی، یہی وجہ تھی کہ انگریزوں نے ایک جانب1861 ء سے آج کے پاکستانی علاقوں میں ریلوے لائن تیزی سے بچھانی شروع کر دی تو دوسری جانب خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بھی اپنی دفاعی لائن زیادہ مضبوط کی اور 1878ء میں جنگ سے قبل ہی بلو چستان میں کو ئٹہ شہر اورچھائونی بنا دی اور اسی سال افغانستان پر حملہ کر دیا۔ یہ دوسری اینگلو افغان وار 1880ء تک جاری رہی، اس جنگ میں انگریز چونکہ فاتح تھا لہٰذا اُن کی اطلاعات کے مطابق 1630 سے زیادہ انگریز فوجی ہلاک جب کہ افغانستان کے 12700 فوجی اور قبائلی مجاہدین شہید ہوئے ۔

1879ء میں کابل افغانستان کی حکومت اور برطانوی ہند کے درمیان ایک معاہد ہ گنڈامیک ہوا پھر پہلے یہ طے ہوا کہ یعقوب خان کے بھائی ایوب خان کو بادشاہ بنایا جائے لیکن بعد میں انگریزوں نے اُس کے چچا زاد بھائی عبدالرحمن کو امیرِ کابل بنا دیا تو ایوب خان جو اُس وقت ہرات کا گورنر تھا اُس نے بغاوت کر دی، اُس کو انگریزوں نے 1880ء میں شکست دی اب افغانستا ن اس معاہدے کے بعد مکمل طور پر آزاد نہیںتھا، اورافغانستان نے اپنے امورخارجہ انگریزوں کے حوالے کر دئیے تھے اور اِس کے عوض سالانہ ایک بڑی رقم سبسڈی کی نام پر حاصل کر نا شروع کردی تھی انگریز نے یہ بھی یقین دلایا تھا،کہ افغانستان پر کسی ملک کی جانب سے حملے کی صورت میں برطانیہ اُس کی بھرپور فوجی مدد کرے گا ۔

دوسری جانب افغانستان کے شمال میں ترکمانستان، ازبکستان، اور تاجکستان میں اب روس موجود تھا، اب برطانیہ اور روس کے درمیان افغانستان تھا جہاں امور خارجہ انگریز کے ہاتھ میں تھے اور باقی اندرونی طور پر افغا نستان آزاد تھا، مگر اب آئندہ 39 سال پوری دنیا کے لیے نہایت اہم اور خطرناک تھے، یوں 1914 ء میں پہلی جنگ عظیم شروع ہو ئی، اس جنگ میں ایک طرف سلطنتِ جرمنی، خلافتِ عثمانیہ، آسٹریا، ہنگری اور بلغاریہ تھے جن کی فوجوں کی مجموعی تعداد 2 کروڑ 52 لاکھ 48 ہزار سے زیادہ تھی اور اس کے مقابلے میں جو اتحادی فوجیں تھیں۔

ان کی تعداد 4 کروڑ 29 لاکھ 59 ہزار سے زیادہ تھی اور اِس اتحاد میں روس، برطانیہ، فرانس،اٹلی ، رومانیہ ، جاپان، مونٹینگر و، یونان، پرتگال، سربیا وغیرہ تو آزاد حیثیت میںاور ساتھ اِن کی نوآبادیات شامل تھیں امریکہ اس جنگ اور اس اتحاد میں 1917 ء میں شامل ہوا جب کہ روس میں 1917ء میں لینن اور اسٹالن کی سر براہی میں کیمونسٹ انقلاب آیا تو اِس انقلابی حکومت نے روسی کو جنگ عظیم اوّل سے نکال لیا اُ س وقت تک اس جنگ میں روس کے 1 کروڑ 20 لاکھ فوجی لڑے اور 18 لاکھ 11 ہزار فوجی ہلاک اور دگنی سے زیادہ تعداد میں زخمی اور معذور ہو چکے تھے، 1918 ء میں عالمی جنگ یا جنگ عظیم اوّل ختم ہو گئی۔

یہاں سے دنیا کی ایک نئی سیاسی،اقتصادی، عسکری ساخت واضح انداز میں سامنے آنے لگی، جنگ عظیم اوّل کے اختتام پر جرمنی اور سلطنت عثمانیہ شکست کھا کر بکھر گئی تھی، روس کی زار بادشاہت ایک برس پہلے ہی ختم ہو گئی تھی، برطانیہ کی نوآبادیات اگرچہ ابھی زیادہ تھیں اور دنیا کے25 فیصد رقبے اور پوری دنیا کی 24% آبادی پر اُس کی حکومت تھی مگر یہ بھی تلخ حقیقت تھی کہ اب وننگ اسٹینڈ پر دنیا کی سپر پاور برطانیہ کی بجائے امر یکہ تھا۔ اس جنگ عظیم اوّل میں جرمنی اور سلطنت عثمانیہ کی فوجوں کے43 لاکھ 46 ہزار فوجی جاں بحق ہوئے، 37 لاکھ سے زیادہ شہری جاں بحق ہوئے اور اِن سے دگنی تعداد میں زخمی اور معذور ہوئے۔ اِس کے مقابلے میں فاتحین نے اپنے جانی نقصان کی جو تفصیلا ت دیں اُن کے مطابق اتحادی افواج کے55 لاکھ 25 ہزار فوجی، 40 لاکھ سے زیادہ شہری جاں بحق ہوئے اور ان سے تین گنا زیادہ زخمی اور معذور ہوئے۔

یورپ، ایشیا اور افریقہ کے بار ے میں سرمایہ داروں کو یہ احساس شدت سے ہوا کہ اِن کا سرمایہ اب یہاں محفوظ نہیں اس لیے پوری دنیا سے سرمائے کا بہائو جنگ عظیم اوّ ل کے دوران امریکہ کی طرف ہوا، جو سات سمندر پار اب جدید سائنس اور ٹیکنا لوجی کے تمام شعبوں میں تیزی سے ترقی کرتا ، دنیا کا ایک محفوظ اور مضبوط ترین اقتصادی، صنعتی، دفاعی اور عسکری قلعہ بن چکا تھا اور اب تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ صلا حیتوں کے حامل افراد امریکہ جا رہے تھے۔ یہی وقت تھا جب نو آبادیاتی نظام دنیا میں مکمل ہو کر نئے مرحلے میں داخل ہونے والا تھا، اِسی موقع پر علامہ اقبال نے مایوس مسلمانوں کی امید بندھاتے ہو ئے کہا تھا،

اگر عثمانیوں پہ کوہ، غم ٹو ٹا تو کیا غم ہے
کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا

جنگ عظیم کے بعد فوری طوری صرف حجاز مقدس ہی آزاد ملک تھا، انگریز یہ جانتے تھے کہ اگر اِس ملک پر قبضہ کر لیا گیا تو اُس وقت کی پوری دنیاکی ایک ارب 80 کروڑ آبادی میں 30 کروڑ مسلمانوں کو کنٹرول کر نا ناممکن ہو جائے گا جو ارضِ مقدس کی خاطر جان کی باز ی لگا دیں گے ، مگر 1919ء تک جب فرانس کے مشہور محل وارسسز میں شکست خوردہ جرمنی کو ذلت آمیز معاہدے ’’معاہدہ وارسائی‘‘ پر دستخط کروائے جانے والے تھے، دنیا میں تبدیلیوں کے آثار نمایاں ہوئے، مسلم ممالک میں اہم کردار ترکی اور افغانستان نے ادا کیا، افغانستان پر جنگ عظیم اوّل کے دوران 1879ء میں انگریزوں نے امیر عبدالرحمٰن سے گڈ میک معاہد کیا تھا، اِس کا انتقال 1901 ء میں ہوا۔

اِس کے بعد حبیب اللہ خان افغانستان کا بادشا ہ بنا تو اُس نے بھی اپنے باپ کی طرح گڈمیک معاہد ے کی پاسداری کی اور اپنی خارجہ پالیسی کو برطانوی مفادات کے تابع رکھا اور روس زارشاہی کے زمانے میں روس سے افغانستان کو دور رکھا، خصوصًا جب جنگ عظیم اوّل شروع ہوئی تو نہ صرف افغانستان کے عوام بلکہ برصغیر کے عوام نہایت جذباتی انداز میں خلا فتِ عثمانیہ کی حمایت میں تھے اور اِن کے شانہ بشانہ انگریزوں اور اتحادیوں کے خلا ف جہاد کرنا چاہتے تھے اور ان کی نظریں افغانستان کے بادشاہ حبیب اللہ کی جانب تھیں لیکن حبیب اللہ نے خود کو انتہائی غیر جانبدار رکھا، پھر 1917ء جب جنگ جاری تھی اور روس میں لینن اور اسٹالن کمیونسٹ انقلاب لے آئے تھے تو اُس وقت امر یکہ سمیت باقی اتحادی جنگ عظیم میں مصروف تھے۔

تو اُن کے لیے یہ بہت نازک موقع تھا اور اِس موقعے پر بھی حبیب اللہ خان نے برطانیہ سے معاہدہ نبھایا، یوں جب جنگ ختم ہوئی تو حبیب اللہ خان کو امید تھی کہ انگریز اُن کے اِس عمل کو تسلیم کرے گا اور اِ س کا کوئی نہ کوئی صلہ ضرور دیا جائے گا، یوں امیر حبیب اللہ خان نے انتظار کے بعد خود انگریز سرکار سے درخواست کی کہ 1919 ء میں ہونے والی ورسلز امن کانفرنس میں افغانستان کی خودمختار خارجہ پالیسی کو تسلیم کرتے ہو ئے بطور ایک آزاد ملک نشست دی جائے لیکن وائسرائے ہند، فیڈرک دی سنگر نے اُن کی اِس درخوست کو رد کردیا بعد میں اگرچہ اِس درخواست پر مذاکرات پر آمادگی ہو گئی تھی لیکن اسی دوران امیر حبیب اللہ خان کو افغانستان میں قتل کر دیا گیا اور اِ ن کے بھا ئی نصراللہ خان نے بادشاہت کا اعلان کر دیا مگر حبیب اللہ خان کا تیسرا بیٹا غازی امان اللہ خان جو کابل میں خزانہ اور فوج کے اعتبار سے عہدے بھی رکھتا تھا اور اپنی خوبصورت اور دل آویز شخصیت کی وجہ سے عوام میں بھی بہت مقبول تھا اُس نے خود کو امیر حبیب اللہ خان کا جانشین قرار دے دیا اور عوام کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہو ئے افغانستان کو مکمل آزاد کردیا، اور برطانیہ کی سبسڈی لینے سے انکار کرتے ہوئے۔

یہ واضح کر دیا کہ افغانستان اپنی خارجہ پالیسی کو آزاد رکھے گا اور اپنے عوام اور افغانستان کے بہتر مفاد میں خارجہ پالیسی ترتیب دے گا، اس سے افغان عوام پُرجوش انداز میں غازی امان اللہ کے ساتھ ہو گئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اتاترک کمال پاشا نے انگریز فوجوں کو ترکی سے نکال کر ترکی کو جمہوریہ بنا کر آزاد اور خود مختار ملک بنادیا تھا، اور وہ قوم پرست ترک لیڈر کہلاتا تھا، اور ترکی اور ترک عوام کو زمانے کے جدید تقاضوں کے مطابق تیزی سے ترقی کی منازل طے کر وا کر دنیا کی ترقی یافتہ اقوام کے برابر لانے کی کوششوں میں مصروف تھا، غازی امان اللہ اتاترک مصطفی کمال پاشا سے متاثر تھے، اِن کے اقتدار میں آنے سے ذرا قبل ہی جلیانوالہ باغ کا واقعہ پیش آیا تھا جس کی وجہ سے ہندوستان بھر میں انگریزوں کے خلاف شدید غم و غصہ تھا کیونکہ یہاں 13 اپریل1919 ء کوجلیانوالا باغ میں فائرنگ کر کے379 افردکو جاں بحق کردیا گیا تھا، 1500 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے، اس کے علاوہ ہندوستان سے تعلق رکھنے والوں پر مشتمل انگریزوں کی فوج کا بڑا حصہ ابھی تک دنیا کے مختلف ملکوں میں موجود تھا۔

جہاں محاذوں پر اگرچہ جنگ تو بند ہو چکی تھی لیکن وہاں حالات ابھی معمول پر نہیں آئے تھے، یوں غا زی امان اللہ نے سوچا تھا کہ افغانستان پر انگریزوں کے حملے کی صورت میں ہندوستان کے کروڑوں عوام انگریز کے خلاف بغاوت کر دیں، لیکن ایسا نہیںہو ا اور انگریزوں نے افغانستان پر حملہ کر دیا، انگریزی فوج کی قیادت لیفٹیننٹ جنرل سر آرتھر برائٹ بریگیڈئر جنرل ریجنیلڈ ڈائر، بریگیڈئیر جنرل الیگزینڈر اسیوٹیکس نے کی تھی جب کہ افغانستان کی فوج کی قیادت غازی امان اللہ خان اور جنرل نادر خان نے کی تھی، انگریزوں کی اس ہندوستانی فوج میںآٹھ ڈویژن، پانچ آزاد بریگیڈ، تین کیولری بریگیڈ ، جدید توپخانہ، ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں شامل تھیں اور سب سے اہم یہ کہ انگریزوں نے اس تیسری اینگلو افغان جنگ میں اُس زمانے کے جدید لڑاکا طیارے بھی استعمال کئے تھے۔ اس کے مقابلے میں افغانستان کی باقاعدہ فوج پچاس ہزار تھی جب کہ خیبر پختونخوا کے اِس طرف اور اُس طرف کے قبائل کے لشکروں کی تعداد 80 ہزار سے زیادہ تھی۔

21 کیولری ریجمنٹ اور 75 انفٹری بٹالین بھی افغان فوج کے پاس تھیں۔ یہ جنگ 6 مئی 1919 ء سے8 اگست1919 ء تک جاری رہی ، اِس جنگ میںانگریزوں نے کابل شہر پر بمباری بھی کی۔ تین مہینے اور دو دن جاری رہنے والی یہ تیسری اینگلو افغان وار یا جنگ 8 اگست 1919 ء کو ختم ہو گئی۔ اس جنگ میں انگریز اور افغانستان نے اپنے اپنے طور پر کامیابی کے دعوے کئے، جنگ میں افغانستان کے ایک ہزار افراد شہید ہوئے اور انگریزوں کی ہندوستانی افواج کے 1251 افرا د ہلاک ہوئے جبکہ ہیضے کی وجہ سے مزید 500 مارے گئے، غالباً غازی امان اللہ خان یہ جنگ بند نہ کرتے اگر ا نگر یزوں کی جانب سے کابل پر بمباری نہ کی جاتی، امان اللہ کا خیال تھا کہ انگریز شہری آبادی پر بمباری نہیں کریں گے ، اور اگر ایسا ہوتا اور جنگ طول کھینچ جاتی تو واقعی انگریزوں کے لیے مسائل پیدا ہو جاتے۔ تیسری برطا نوی افغان جنگ کے بعد ہندوستان کی انگریز سرکار اور افغانستان کے درمیان امن کا معاہدہ ہوا جس میں گڈ میک معاہدے کو ختم کردیا گیا۔ افغانستان انگریزوں کی جانب سے دی جانے والی سالانہ سبسڈی سے دستبردار ہو گیا اور اس طرح افغانستان اپنی خارجہ پالیسی اور دفاعی امور میں آزاد ہو گیا،آئندہ برطانوی ہندوستان اور افغانستان کے درمیان امن بر قر ار رکھنے کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان Durand Line ڈیورنڈ لائن قرار دیا گیا مگر یہ حقیقت ہے کہ اس لائن کے دونوں اطراف پشتون قبائل آباد ہیں، یوں یہ لائن روایتی ہی رہی۔

انگریزوں نے جنگ کے بعد اپنی خاص انداز کی سیاست سے کوشش کی کہ غازی امان اللہ خان سے تعلقات کو بہتر کیا جائے، یوں جنگ کے فوراً بعد راولپنڈی میں ایک شاہی دربار منعقد کیا جس میں افغانستان کی جانب سے امان اللہ خان کے سسر سردار محمد طرزئی وزیر خزانہ دیوان نرجن داس اور سردار علی جان نے شرکت کی انگریزوں کی جانب سے برطانیہ کے افغانستان میں سفیر سر فرانسس ہمزیز اور سرجان ٹامہپسن تھے ،اس دربار میں انگریزوں کے نمائندے کی تقریر کے بعد سردار علی احمد جان نے تقریر کرتے ہوئے انگریزوں کے خلاف شدید جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انگریز قوم جو اپنے آپ کو دنیا کی مہذب اور شائستہ قوم قرار دیتی ہے، اسی قوم نے حقیقت میں وحشی، سفاک اور بے رحمانہ انداز میں کابل جیسے پُرامن شہر پر بمباری کی اور معصوم شہریوں کو ہلا ک کیا، انگریز اس وقت اپنی خاص ڈپلو میسی کے تحت چپ رہے مگر اسی دن سے انہوں نے امان اللہ خان کی حکومت کے خلاف سازشی منصوبے بنانے شروع کر دئیے۔1919ء میں برطانیہ سے جنگ اور پھر معاہدے کے فوراً بعد غازی امان اللہ خان نے ایک سفارتی وفد ماسکو بھیجا جس کو لینن نے پُر تپاک انداز میں خوش آمدید کہا اور جواب میں فوراً سفارتی نمائندہ کابل بھیجا۔ مئی 1921 ء میںافغانستان اور روس میں دوستی کا معاہد ہ طے پا گیا۔

یہ معاہدہ افغانستان کی مکمل آزادی اور خودمختاری کے بعد بحیثیت آزاد ملک کسی دوسرے ملک سے پہلا معاہدہ تھا۔ واضح رہے کہ 1919 ء سے 1945ء تک پوری دنیا میں صرف تین اسلامی ملک ہی آزاد تھے جن میں آج کا سعودی عرب، ترکی اور افغانستان شامل تھا، اِدھر انگریزوں کو یہ بات ہضم نہیں ہو رہی تھی، اور وہ امان اللہ خان کی حکومت کے خلاف سازشوں میں مصروف تھے، غازی امان اللہ خان اپنی بہادری، مردانہ وجاہت اور افغانستان کی آزادی کے لحاظ سے تو عوام میں بے حد مقبول تھا مگر حکومتی امور چلانے اور منصوبہ بندی اور حکمتِ عملی اختیار کرنے کے لحاظ سے وہ اتاترک مصطفی کمال پا شا سے متا ثر تھا، وہ افغانستان کو قدامت پسندی سے نکال کر جد ید بنانا چاہتا تھا، لیکن افغانیوں کا یہ مزاج نہیں وہ آج بھی مغربی تہذیب اور اقدار کو پسند نہیں کرتے۔ اس صورتحال میں غازی امان اللہ خان سے زیادہ کردار اُس کے خسر سردار محمد طرزئی اور اس کی بیٹی ملکہ ثریا کا تھا۔

وہ انگریز دشمنی میں بھی امان اللہ خان سے آگے تھے تو جدت پسندی میں اہل مغرب کے لباس اور انداز کو ناپسند نہیں کرتے تھے۔ اب انگریزوں نے اپنی خاص عیارانہ ڈپلو میسی کے تحت غازی امان اللہ خان کے خلا ف سازش تیار کی اور کچھ عرصے بعد کابل میں متعین انگریز سفیر سر فرانسس ہمفر نے امان اللہ خان کو یورپ کے دورے کی دعوت دی اور غالبا امان اللہ خان نے یہ دعوت اس لیے فوراً قبول کرلی کہ وہ برطانیہ سمیت پورے یورپی ممالک اور شائد امریکہ کو بھی یہ بتا نا چاہتا تھا کہ اب افغانستان ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے جو آزاد خارجہ پالیسی کے تحت روس سے سفارتی تعلقا ت قائم کر چکا ہے مگر اُس کی خارجہ پالیسی روس کے تابع نہیں ہے، جب غازی امان اللہ نے یہ دعوت قبول کر لی تو فوراً ہی برطانیہ سمیت فرانس، بیلجیئم اور دوسرے یورپی ملکوں میں بحیثیت افغانستان کے بادشاہ اُس کے فقید المثال استقبال کی تیاریاں شروع ہوگئیں، یہ استقبال اس طرح کا تھا کہ جیسے امریکہ ، برطانیہ یا فرانس کے سربراہ کا استقبال کیا جاتا ہو، برطانیہ کی جانب سے وائسرائے ہند نے غازی امان اللہ خان کے لیے ہنگامی بنیادوں پر ایک نہایت ہی عمدہ لگژری ٹرین مغلپورہ ریلوے ورک شاپ میں تیار کی، اس ٹرین کی چار بوگیاں تو ایسی تھیں جو اپنی سجاوٹ اور خوبصورتی کے لحاظ سے اس وقت دنیا بھر میں اپنا ثانی نہیں رکھتی تھیں جب ٹرین تیار ہو گئی تو اِس ٹرین کو نہایت اعلیٰ شاہی آداب اور پروٹوکول کے ساتھ لاہور سے چمن ریلوے اسٹیشن پہنچایا گیا۔

دورے کے آغاز پر شاہِ افغان غازی امان اللہ خان ،قندھار سے افغان فوج کے دستوں کے جلو میں اپنی رولز رائس کار میں چمن ریلوے اسٹیشن پہنچے تو اسٹیشن پر نہایت پُر تکلف انداز میں اُن کا اور اُن کی ملکہ ثریا کا استقبال کیا گیا۔ چمن سے کو ئٹہ اور کوئٹہ سے کراچی تک جہاں کہیں یہ شاہی ٹرین رکی وہاں بہت پُرجوش انداز میں شاہِ افغانستان کا استقبال ہوا، کراچی سے مارسیلز کا سفر بحری جہاز میں طے ہوا، یہاں سے شاہی استقبال کے بعد وہ جب پیرس پہنچے تو فرانس کے صدر پوانکارے نے اپنی پوری کا بینہ کے ہمراہ پیرس کے ریلوے اسٹیشن پر امان اللہ خان کا ا ستقبال کیا، اس موقع پر دنیا بھر کے بڑے اخبارات کے نمائندے اور فوٹو گرافر موجود تھے۔ ملکہ ثریا نے یورپی لباس پہن رکھا تھا، یہ فوٹو گرفر مختلف زاویوں سے اِن کی تصاویر بنا رہے تھے اور ملکہ ثریا استقبال کرنے والوں سے بلاجھجھک مسکراتے ہو ئے ہاتھ ملا رہی تھیں، اِن کو پھولوں کے گلدستے پیش کئے گئے، یہاں دودن شاہی مہمان کی طرح انہیں رکھا گیا اورانتہائی پروٹوکول دیتے ہو ئے خاص مہمان کے طور پر نپولین کے بیڈ روم میں اُن کے بستر پر سلایا گیا۔

برطانیہ میں اِن کا استقبال ملکہ میری نے تمام شہزادگان کے ساتھ کیا، اور دورانِ قیام بہت پُر تکلف دعوتوں کا اہتمام کیا گیا۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ آج تک اس خطے سے تعلق رکھنے والی کسی بھی شخصت کا ایسا فقید المثال استقبال یورپ میں نہیں کیا گیا، شاید اُن کا خیال تھا کہ اس طرح وہ امان اللہ کو اپنا حلقہ بردار بنا لیں گے اور اس میں کامیاب ہو جائیں گے کہ بظاہر تو افغانستان کی خارجہ پالیسی آٓزاد رہے مگر اس کا جھکائو برطانیہ اور یورپ کی جانب ہو اور افغانستان کو سبسڈی کی بجائے امان اللہ اور اُس کے خاندان کو نواز ا جائے، مگر اس میں اُن کو شدید ناکامی اُس وقت ہو ئی جب دورے کے خاتمے پر امان اللہ نے واپسی پر براستہ روس افغانستان جانے کا فیصلہ کیا۔ انگریزوں نے انہیں روس جانے سے روکنے کے لیے بہت کو ششیں کیں مگر وہ کسی طرح نہیں مانے وہ اس موقع پر پوری دنیا کو یہ واضح پیغام دینا چاہتے تھے کہ اب افغانستان دفاعی، خارجی اور داخلی طور پر آزاد اور غیر جانبدار ہے ۔

دوسری جانب وہ روس کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے کہ ایک تو روس افغانستان کا ہمسایہ تھا اور ساتھ ہی ایک بڑی قوت بھی تھا، پھر افغانستان کی آزاد خارجہ داخلہ پالیسی کے بعد اب ضروری تھا کہ روس اور باقی ملکوں سے افغانستان کے ایسے اقتصادی ، تجارتی تعلقات ہوں جن کی بنیاد پر برطانیہ کی سبسڈی کے متبادل کے طور پر باعزت انداز میں قومی آمدنی میںاضافہ ہو سکے۔ برطانیہ امان اللہ کو روس جانے سے نہ روک سکا اور اس کے بعد برطانوی پارلیمنٹ میں سیکرٹری آف اسٹیٹ انڈیا نے امان اللہ کو روکنے کے اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ Lord Birken head went out of his way advisiing Amanullha politely to refren from going to Russia, اس کے بعد برطانیہ نے اُسی لارڈ لارنس کی خدمات حاصل کیں جس نے عربوں کو ترکی سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف ابھارا تھا اور جنگِ عظیم اوّل کی فتح میں اُس کا بڑا ہاتھ تھا، اسے تاریخ میں لارنس آف عریبیہ بھی کہا جاتا ہے اور ساٹھ کی دہائی میں ہالی ووڈ نے اس پر ایک زبردست فلم بھی اسی نام سے بنائی تھی، اس کی شخصیت بڑی کمال کی تھی وہ عبرانی، فارسی، عربی، پشتو اور کئی زبانوں کا ماہر تھا۔ زبور، توریت، انجیل اور قرآن مجید کا حافظ تھا کئی کئی دن بھوک اور پیاس کے ساتھ صحرائوں میں گزارا کر سکتا تھا۔

وہ جنگ عظیم کے بعد کرنل کے عہدے سے ریٹائر ہو کر فارغ بیٹھا تھا اب خصوصی مشن پر پہلے کراچی پہنچا اور پھر کوئٹہ ہوتے ہوئے قندھارآیا اور یہاں سے افغانستان میں امان اللہ خان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہو گیا۔ یہاں اُس نے خود کو ایک مسلمان با کرامت بزرگ کی حیثیت سے پیش کیا جو سادہ لوح افغانیوں کے مسائل خصوصا مالی مسائل اپنی روحانی کرامات سے فوراً حل کر دیا کرتا تھا ، دوسری جانب ملکہ ثریا نے یورپی لباس میں جو تصاویر یورپ کے دورے کے دوران مردوں سے مصافحہ کرتے ہو ئے بنوائی تھیں اُن کو کہیں زیادہ فحش امرتسر کی ایک پریس میں بنایا گیا،کئی ایسی تصاویر بھی بنائی گئیں جس میں برہنہ نچلا دھڑ کسی اور کا لگایا گیا اور ایسی لاکھوں کاپیاں افغانستان کے سادہ لوح عوام میں پھیلا دی گئیں۔

اب افغان عوام میں غم و غصے کی چنگاریاں اٹھ رہی تھیں کہ اِن کو بغاوت کے شعلوں میں بدلنے کے لیے بچہ سقہ کو تیار کیا گیا اور غازی امان اللہ کے خلاف پورے افغانستا ن میں بغاوت کے شعلے بلند ہو گئے، امان للہ کے خاندان کے بہت سے افراد کو قتل کر دیا گیا اور امان اللہ خان بہت مشکل سے اپنی رولز رائس کار میں فرار ہو کر قندھار سے ہو تا ہوا چمن پہنچا جہاں وہ ایک عام مسافر کی طرح چمن ریلو ے اسٹیشن سے روانہ ہوا، پھر کراچی سے بذریعہ بحری جہاز اٹلی گیا اور اپنی بچی کچی دولت سے وہاں مکان خریدا اور زندگی کا باقی حصہ جلا وطنی میں وہیں گزارا، اور اٹلی ہی میں وفات پائی ۔

تیسری اینگلو افغان جنگ جو 6 مئی 1919 ء سے 8 اگست1919 ء تک جا ی رہی اِسے اب پوری ایک صدی مکمل ہوگئی ہے اور اگر پہلی اینگلو افغان جنگ 1839 سے دیکھیں تو یہ عرصہ یا مدت 184 سال ہو چکی ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ گذشتہ 100 برسوں سے افغانستان کسی نہ کسی حوالے سے جنگ آزادی میں مصروف ہے جس کا آغاز غازی امان اللہ نے کیا تھا اور کامیاب بھی رہا تھا مگر اس کے بعد افغا نستان ایک طویل عرصہ تک بفر زون یعنی حائلی ریاست رہا۔ یہ دورانیہ دو مراحل میں رہا پہلا مرحلہ امان اللہ خان کے رخصت ہونے کے بعد سے دوسری جنگ عظیم 1939 ء تا1945 تک رہا جب اس دوران بھی افغانستا ن نے خود کو غیر جانبدار رکھا۔ اس دوران سابق سوویت یونین بھی برطانیہ ، فرانس ، امریکہ کے اتحاد میں شامل رہا اور پھر دوسرا مرحلہ 1945 ء کے فوراً بعد کا رہا، جب تھوڑے عرصے بعد ہی ایک جانب امریکی بلا ک نیٹو بنا اور پھر اس کے مقابلے میں سابق سوویت یونین کا وارسا پیکٹ ممالک کا بلاک تھا۔

جس کے دوران اس کی ستر کی دہائی کے آخر تک اس سرد جنگ کے گرم میدان مشرق وسطیٰ ، کوریا ، ویتنام اور کیوبا بنے، مگر اسی دوران 1970-71 میں مشرقی پاکستان کا عظیم المیہ پیش آیا جس میں سوویت یونین اور بھارت گٹھ جوڑ تھا، اس کے ایک سال بعد ہی مشرق وسطیٰ میں 1973 ء کی عرب اسرائیل جنگ میں بھی دونوں بلاک آمنے سامنے تھے اور اس میں کامیابی سابق سوویت یونین کو ہوئی مگر یہ حقیقت ہے کہ اُس وقت تک افغانستا ن سرد جنگ کا گرم میدان نہیں بنا البتہ بفر زون ہو نے کی وجہ سے اِس قبائلی معاشرے میں ٹھہرائو ضرور رہا، اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ 1839ء کی پہلی اینگلو افغان جنگ میں روس سنٹرل ایشیا کی ریا ستوں میں داخل ہونے لگا۔ 1878 کی دوسری اینگلو افغان جنگ میں روس سنٹرل ایشیا کی تقریباً تمام ریاستوں پر قابض ہو چکا تھا اور 1990 ء میں سوویت یونین کے ٹوٹ جانے کے بعد سنٹرل ایشیا کی ریا ستیں ازبکستان ، کرغیزستان، قازقستان، تاجکستان، ترکمانستان، آذربائیجان میں شرح خواندگی98 فیصد تک تھی اور سیاسی، سماجی شعور کی سطح بہت بلند تھی، جب کہ پاکستان میں آج شرح خوندگی 58 % ہے مگر پاکستان میں دیگر اسلامی ممالک کے مقابلے میںجمہوری سیاسی شعور کہیں زیاد ہ ہے۔

لیکن جب ہم افغانستان کو دیکھتے ہیں تو یہ تلخ حقیقت ہے کہ اس کو پوری دنیا نے بفر اسٹیٹ بنا کر نظر انداز کیا اور پھر سب سے بڑا ظلم یہ ہوا ہے کہ جب 1977 ء میں پاکستان میں مارشل لا نافذ ہوا،1978-79 ء میں ایران میں شہنشاہ ایران کا تحت الٹ دیا گیا اور امام خمینی کی قیادت میں انقلاب آیا تو ساتھ ہی افغانستان میں صدر دائود کے قتل کے بعد نور محمد ترکئی روس نواز، خونی اشتراکی انقلاب کے نام پر بر سر اقتدار آئے اور پھر سوویت یونین کی فوج اِن کی حمایت میں افغانستان میں داخل ہو گئی اور افغانستان کی بفر زون کی حیثیت ختم ہو گئی اور نور محمد ترکئی، پھر حفیظ اللہ امین کے قتل کے بعد ببرک کارمل برسراقتدار آئے۔ 1981 ء میں اقوام متحد ہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں افغانستان سے روسی فوجوں کے انخلا کی قرارداد 23 ملکوں کے مقابلے میں 116 ممالک کے ووٹ سے منظور ہوئی، 1982 ء سے پاکستان، افغانستان کے درمیان جنیوا مذاکرات شروع ہوئے اور آخر کار 14 اپریل 1988 ء کو جنیوا میں چار طاقتی معاہد ہ ہوا جس پر پاکستان کی جانب سے امور خارجہ کے وزیر مملکت زین نورانی نے، افغانستان کے وزیر خارجہ سردار الوکیل نے روس کی جانب سے شیورنازلے نے امریکہ کی جانب سے جارج شلٹر اور اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری پیریزڈی کوئیار نے دستخط کئے۔ اس معاہد ے کے اہم نکات یوں تھے:۔

1۔ روس کی مسلح افواج کا انخلا 15 مئی 1988 ء کے بعد شروع ہوگا، اور یہ عمل نو مہینے کے اندر مکمل ہو جائے گا
2 ۔ 15 مئی 1988 ء کے بعد افغانستان اور پاکستان کے اندرونی امور میں نہ کو ئی مداخلت ہوگی اور نہ ان کے خلاف کسی قسم کی جارحانہ کاروائی کی جائے گی۔
3۔ امریکہ اور روس علاقے کی دونوں ریا ستوں یعنی پاکستان اور افغانستان کے امور میں دخل نہیں دیں گے، دیگر ممالک بھی عدم مداخلت کی پالیسی پر عمل پیرا ہوںگے۔
4 ۔ پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کی خود مختاری، غیر جانبداری، استحکام اور یک جہتی کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھا ئیں گے، نہ طاقت استعمال کریں گے اور نہ اس نوعیت کی دھمکی دیں گے ،اس سلسلے میں روس اور امریکہ نے ضمانتیںدیں۔
5 ۔ مہاجرین کی وطن واپسی کا بندوبست کیا جائے گا اور ممالک باہم مددکریںگے۔

واضح رہے کہ اس معاہد ے کے دوران پاکستان نے تجویز دی کہ روسی فوجوں کے انخلا سے پہلے افغانستان میں عبوری حکومت قائم کی جائے پھر یہ تجو یز بھی دی گئی کہ یہاں اقوام متحدہ کی امن فوج تعینات کی جائے مگر افسوس ا یسا نہیں ہوا، روس اربوں ڈالرز کا اسلحہ چھوڑکر نکل گیا اس کے بعد ببرک کارمل کے قتل تک اور پھر آپس کی خانہ جنگی اور اس کے بعد طالبان کا زمانہ آیا اور پھر 11 ستمبر2001 ء سے لے کر آج تک پوری دنیا خود انصاف کرے کہ اُس نے افغانستان اور اُس کے معصوم عوام کے ساتھ کیا کیا اور اب تو افغانستان کی جنگ آزادی کو متواتر جنگوں اور جنگوں کی عالمی سازشوں کے ساتھ پورے سو سال ہو چکے ہیں۔ اور اب پھر یہ اندیشے ہیں کہ افغانستان سے امریکی اور نیٹو فوجوں کا انخلا کیسے ہو گا؟ کیا اس سے قبل کو ئی امن معاہدہ ہو گا؟،کوئی عالمی سچی ضمانت مکمل امن کی دی جا سکے گی؟ یہ سوال پوری دنیا سے ہے کیونکہ افغانستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں برطانیہ نے بھی جنگ کی۔ روس کی فوجیں بھی یہاں آٹھ سال تک جارحیت میں ملوث رہیں اب اگرچہ نیٹو اور امریکی افواج اقوام متحدہ کی قرارداد کی بنیاد پر یہاں موجود ہیں مگر اب جا نا چاہتی ہیں، ہماری دعا ہے کہ اب افغانستان میں امن ہو اور پائیدار امن ہو، آمین۔

The post افغانستان۔۔۔۔ ایک صدی کی کہانی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو http://bit.ly/2JPvVSr

No comments:

Post a Comment

May or later: Rocket Lab may launch a small probe to Venus

By Unknown Author from NYT Science https://ift.tt/OPbFfny