پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ہے، خاص طور پر اگر بات کی جائے گلوکاری کی تو پاکستان میں بے شمار ایسی آوازیں موجود ہیں جو دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کرچکی ہیں جن میں سر فہرست استاد نصرت فتح علی خان صاحب ہیں۔ خان صاحب تو اس دنیا فانی سے کوچ کرچکے ہیں مگر ان کی آواز آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے۔ آج کل کی جنریشن بھی بہت شوق سے ان کے گائے گیت، قوالیاں اور نغمے سنتی ہیں۔ خان صاحب نے دنیا کے کئی ممالک میں اپنی آواز کا جلوہ بکھیرا اور انگریز تو ان کی آواز کو خدا کی آواز بھی کہ چکے ہیں۔
نصرت فتح علی خان کے بعد اب ان کے بھتیجے راحت فتح علی خان سنگیت کی نگری میں راج کرنا کر رہے ہیں۔ پاکستان اور انڈیا کی فلموں میں کم از کم ایک گانا راحت فتح علی خان کا ضرور شامل کیا جاتا ہے۔ راحت فتح علی خان کوک اسٹوڈیو میں بھی اپنےفن کا جلوہ دکھا چکے ہیں۔
اس کے علاوہ ملکہ ترنم نور جہاں جو کہ پاکستان کی ہر دلعزیز گلوکارہ تھیں، انہوں نے زیادہ تر گانے اس وقت گائے جب پاکستان اور انڈیا کی جنگ چل رہی تھی اور ان کے گانوں نے پاکستانی سرحد پر موجود جوانوں کے جوش و ولولہ میں حیرت انگیز اضافہ کیا۔ ان کے گانے، “اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے” اور “اے راہ حق کے شہیدوں” ہر زبان پر عام ہو گئے تھے۔ نور جہاں کے گانے بھی آج کی جنریشن بہت شوق سے سنتی ہے۔ ملکہ ترنم نور جہاں کی آواز کے جلوے صرف پاکستان تک محدود نہ تھے جبکہ سرحد پار انڈیا اور بنگلہ دیش میں بھی ان کے مداحوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ ان کی بہترین پرفارمنس پر حکومت کی جانب سے انہیں بہت سے ایوارڈز سے بھی نوازا گیا مگر زندگی ان کی بھی مختصر رہی اور ہارٹ اٹیک کی وجہ سے 23 دسمبر 2000 کو کراچی کے ایک نجی ہسپتال میں وفات پا گئیں۔
پاکستان میں گلوکاری کی دنیا کا ایک اور بڑا نام نازیہ حسن ہے جنہوں نے ایشیاء میں پوپ میوزک کی بنیاد رکھی۔ نازیہ حسن نے بے شمار گانے گائے جن کا ریمیک آج بھی پاکستانی اور انڈین فلموں میں بن رہا ہے۔ کرن جوہر کی فلم “سٹوڈنٹ آف دی ائیر” میں نازیہ حسن کا گانا ڈسکو اور پاکستانی فلم “ہو من جہاں” میں دوستی گانے کا ریمیک بنایا گیا۔ نازیہ حسن نے زیادہ تر اپنے بھائی زوہیب حسن کے ساتھ گانے گائے مگر زندگی نے نازیہ حسن کے ساتھ وفا نہ کی اور وہ 13 اگست 2000 کو لندن میں وفات پا گئیں۔
لالہ موسیٰ کے عارف لوہار صاحب جو کہ مشہور گلوکار عالم لوہار کے فرزند ہیں، اپنے گانے جگنی کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ عارف لوہار پنجابی فوک گانے گاتے ہیں۔ انہوں نے بچپن سے ہی اپنے والد کی شاگردی میں گلوکاری کا فن حاصل کیا اور آج ان کے گانے لالی ووڈ، بالی ووڈ، جبکہ ہالی ووڈ فلموں میں بھی شامل کیےجارہے ہیں۔ عارف لوہار نے پچھلے 20 سالوں میں 50 ممالک میں بھی پرفارمنس دی ہے اور اب بھی غیر ملکی کنسرٹ کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ عارف لوہار کوک سٹوڈیو میں بھی پرفارم کرچکے ہیں اور انہیں عوام کی طرف سے بہت پذیرائی بھی ملی ہے۔
اکیسوی صدی کے آغاز میں پاکستان گلوکاری کے بڑے ناموں سے محروم ہوگیا مگر بہت سے گلوکاری کے ٹیلنٹ بھی ابھر کر سامنے آئے جن میں لاہور کے رہائشی علی ظفر ہیں۔ علی ظفر ایک سانگ رائٹر اور گلوکار ہیں۔ یہ پاکستان کے علاوہ بھارت میں بھی اپنی گلوکاری کے جوہر دکھا چکے ہیں۔ ان کے علاوہ وزیر آباد کے عاطف اسلم بھی بھارت میں بہت مقبول ہیں۔ ہر دوسری بڑی انڈین اور پاکستانی فلم میں عاطف اسلم کا گانا ہوتا ہے۔ عاطف اسلم کے علاوہ فلک شبیر، امانت علی، شہزاد رائے، جواد احمد، قرۃ العین بلوچ، نبیل شوکت، سجاد علی، شفقت امانت علی، رفاقت علی خان، زیشان علی، عینی خالد اور حمیرہ ارشد بھی گلوکاری میں اپنا نام چمکا رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ پاکستان گلوکاری کے ٹیلنٹ سے بھرا پڑا ہے لیکن یہاں گلوکاری کے باقائدہ سکولز یا تربیتی ادارے نہیں ہیں۔ بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو کہ قدرت کی طرف سے ایک اچھی آواز رکھتے ہیں مگر انہیں کوئی پلیٹ فارم میسر نہیں ہے۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو کہ اپنی مدد آپ کے تحت اپنا گلوکاری کا کوئی البم نکلوا لیتے ہیں، کسی کا سکہ چل جاتا ہے تو کسی کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے موقعے پر تو فرض انہی لوگوں کا بنتا ہے جو گلوکاری کے میدان میں شہرت یافتہ ہیں، ان کو چاہئیے کہ ملک میں گلوکاری کے فروغ کے لیے اقدامات کریں اور نئی آوازوں کے لیے راہیں ہموار کریں۔ حکومت کو بھی چاہئیے کہ نئے گلوکاروں کی تربیت کے لیے پاکستان میں گلوکاری کے سکول، کالجز بنائے تاکہ انہیں بھی ایک ایسا پلیٹ فارم میسر آسکے جو ان کے ہنر کو مزید نکھار کر دنیا کے سامنے لا سکے۔
The post گلوکاری کے ٹیلنٹ کو تربیت گاہ کی ضرورت ہے appeared first on دنیا اردو بلاگ.
from دنیا اردو بلاگ http://ift.tt/2BA1t6U
No comments:
Post a Comment