ملزم کی گرفتاری پر تالیاں بج چکی ہیں اور اب میڈیا کو بھی دیگر معاملات پر توجہ دینے کی فرصت میسر آ گئی ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ اب آگے کیا ہو گا؟ کیا زینب کیس کو بنیاد بنا کر ہم لوگ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کرنے کی کوششوں کا آغاز کریں گے یا محض کاغذائی کاروائیاں کر کے آگے چل پڑیں گے اور اس طرح کے کسی اور واقعہ کا انتظار کریں گے جس کو بنیاد بنا کر چند ہلچل والے دن گذارے جا سکیں۔
پنجاب حکومت اس بات پریقیناً قابل تحسین ہے کہ اس نے اس کیس میں سرعت کے ساتھ کام کرتے ہوئے چودہ دن میں زینب کے قاتل کو گرفت میں لے لیا۔ اس کے بعد مگر جو کچھ شروع ہوا وہ نہ صرف افسوس ناک بلکہ کسی حد تک چونکا دینے والا بھی ہے۔ بلکہ اگر کہا جائے کہ مسلم لیگ ن کی نا اہلیت کا ایک اور نمونہ ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ یہ ان کا المیہ ہے کہ اچھا کام بھی اس برے طریقے سے کرتے ہیں کہ معاملات شکوک و شبہات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ فارنزک لیبارٹری میں ہوئے ڈی این اے ٹیسٹ کی بدولت عمران علی کو زینب کے قاتل کے طور پر شناخت کر لیا گیا۔ اس کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب نے افراتفری میں ایک پریس کانفرنس کی اور قاتل کی گرفتاری کا اعلان کرتے ہوئے فارنزک لیبارٹری کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملانے شروع کر دیئے۔ اس کے علاوہ انہوں نے جے آئی ٹی کے ارکان کو کھڑا کروا کروا کر ان کا تعارف اور تحسین کی۔ اس موقعے پر چند لاپرواہ قسم کے صحافیوں کے تالی بجا دینے سے سبھی نے تالیاں بجا دیں اور قوم کو تنقید کا موقع میسر آ گیا۔ بجا طور پر تالیاں بجانے اور شہباز شریف اور دیگر شرکا کے (امین انصاری۔زینب کے والد کے علاوہ) ہنسنے کا پوری قوم نے برا منایا۔
تالیوں کے شور میں وزیر اعلیٰ پنجاب نے اعلان کیا کہ قصور میں اس سے پہلے ہونے والے سات واقعات میں بھی یہی ملزم ملوث ہے اور اس کا انکشاف ڈی این اے میچ ہونے سے ہوا ہے۔ یہ بہت اچھی بات ہے کہ متعدد وارداتوں میں ملوث ملزم قانون کی گرفت میں آ گیا ہے اور یقیناً حکومت اس ملزم کے ساتھ قرار واقعی سلوک کرے گی۔ چند سوالات کے جواب مگر باقی ہیں۔ یہ سوال بارہا اٹھایا جا رہا ہے کہ اس سے پہلے دو، تین وارداتوں کے جن مجرمان کو سزا دی گئی یا ماورائے عدالت پولیس مقابلے میں ہلاک کر دیا گیا کیا وہ واقعی مجرم تھے؟ اگر وہ مجرم تھے تو اب عمران علی کیسے ان تمام وارداتوں کا ملزم ثابت ہو رہا ہے؟ اور اگر عمران علی ہی حتمی طور پر ان تمام وارداتوں کا مجرم ہے تو جن کو پہلے ہلاک کر دیا گیا ان کے بارے میں پنجاب حکومت کیا جواب دے گی؟ اچھی بات یہ ہے کہ اس معاملے کی تفتیش کے لیے ایک اور جے آئی ٹی قائم کر دی گئی ہے اور آج ہی کی خبر کے مطابق پانچ پولیس اہلکاروں کو زیر حراست لے لیا گیا ہے جبکہ متعلقہ ایس ایچ او مفرور ہے۔ اس معاملے کے حقائق قوم کے سامنے آنے چاہئیں تاکہ قوم کو معلوم ہو سکے کہ ہم لوگ کسی سنجیدہ مسئلے کو دبانے کے لیے کیسے کیسے المیوں کو جنم دے لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بات لازمی طور پر سامنے آنی چاہیئے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ بیل کو بچانے کے لیے مرغا قربان کیا جا رہا ہو۔ قصور میں کچھ عرصہ سے مسلسل دردناک واقعات رپورٹ ہوتے رہے ہیں۔ ان واقعات کے پس منظر میں کسی بااثر شخصیت یا شخصیات کا ہونا ناممکن نہیں ہے۔
اس کے علاوہ ڈاکٹر شاہد مسعود جو نیوز ون چینل کے اینکر ہیں اور ماضی میں بڑے میڈیا گروپس سے وابستہ رہ چکے ہیں اور یہی نہیں بلکہ وہ پاکستان ٹیلی وژن کے مینیجنگ ڈائرکٹر بھی رہ چکے ہیں، انہوں نے اس واقعے سے متعلق کچھ ایسے انکشافات کر دیئے ہیں جن سے پورے ملک میں اضطراب کی سی کیفیت طاری ہو گئی ہے۔ ان کے مطابق ملزم عمران علی اکیلا مجرم نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے ایک بین الاقوامی گروہ ہے ۔ ڈاکٹر شاہد مسعود نے ملزم عمران علی کے37 بنک اکاؤنٹس کا بھی انکشاف کیا ہے۔ ممکن ہے ڈاکٹر شاہد مسعود نے محض سنسنی خیزی کے لیے یہ انکشافات کیے ہوں۔ ممکن ہے ان کے مطمع نظر صرف اپنے چینل کے لیے میڈیا ریٹنگ حاصل کرنا رہا ہو مگر جس شدت اور قطیعت کے ساتھ پنجاب حکومت اور وفاقی حکومت کے چند وزرا اور پاکستانی میڈیا کے نامور لوگ ڈاکٹر شاہد مسعود کے الزامات کو رد کر رہے ہیں وہ اپنی جگہ مکمل تفتیش اور تحقیق کا متقاضی ہے۔ اس کی دو وجوہات ہماری سمجھ میں آتی ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ پنجاب حکومت اپنی فارنزک لیبارٹری کی کارکردگی کو سوالیہ نشان نہیں بنانا چاہتی ۔ اور دوسری وجہ ممکنہ طور پر کسی بااثر شخصیت یا شخصیات کی پردہ داری ہو سکتی ہے۔ ملزم عمران علی کسی بین الاقوامی گروہ کا کارندہ نہ سہی، مگر یہ بات بعید اس قیاس نہیں کہ اس کو ان واقعات میں با اثر شخصیات کی پشت پناہی حاصل رہی ہو۔ سپریم کورٹ نے ان کی باتوں کا نوٹس لے لیا ہے اور اس پر بھی جے آئی ٹی بنا دی گئی ہے۔ ہم امید کر سکتے ہیں کہ نئی جے آئی ٹی محترم بشیر میمن کی قیادت میں حقائق سامنے لے کر آئے گی۔
ہمارے ملک میں جے آئی ٹی اب ایک مذاق بن کر رہ گئی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ پولیس کے نظام کی مکمل ناکامی اور عوام کا پولیس پر عدم اعتماد ہے۔ کسی بھی جرم کی تفتیش پولیس کا بنیادی فرض ہے۔ جدید سا ئنسی طریقوں سے پچھتر ہزار میل کی دوری پر واقع ہماری پولیس اب بھی روایتی چھترول اور لترول پر ایمان رکھتی ہے۔ اس سلسلے میں وہ لطیفہ آپ نے سن رکھا ہو گا کہ ہماری پولیس ہرن کو بھی ہاتھی ہونے کا اقرار کروانے میں مہارت رکھتی ہے۔ ہمارے ارباب اختیار پولیس کو اپنے ذاتی کھلونے کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ اسی سے وہ اپنے مخالفین اور عوام کو کچل کر رکھ دینے کا کام بھی لیتے ہیں۔ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ سنگین جرائم کے پیچھے بااثر شخصیات کا ہاتھ ہوتا ہے اور پولیس ان بااثر شخصیات کو قانون کے کٹہرے میں لانے کے بجائے ان کو کسی بھی قیمت پر بچاتی ہوئی نظر آتی ہے۔
حال ہی میں اوپر تلے جعلی پولیس مقابلوں کی قلعی کھلی۔ کراچی میں نقیب اللہ، انتظار اور مقصود کی ہلاکت نے ، ہماری پولیس کے نظام پر سنجیدہ سوالات کھڑے کر دیئے ہیں۔ اس کے علاوہ پنجاب کے مختلف علاقوں میں بچوں اور بچیوں کے ساتھ پے درپے پیش آنے والے ہولناک واقعات میں اول تو پولیس بے حسی کا مظاہرہ کرتی رہی ہے اور اگر کسی کیس میں ہاتھ ڈالا بھی ہے تو اس کو مزید پیچیدہ اور لاینحل بنا کر رکھ دیا ہے۔ خیبر پختونخوا کی پولیس بھی اس کار بد میں پیچھے نہیں ہے۔ مردان کی عاصمہ ہو یا ڈیرہ اسماعیل خان کی شریفہ ہویا پھر مشال خان کیس ہو۔ اصل مجرمان ابھی تک پولیس کی گرفت سے باہر ہیں۔ تفتیشی نظام میں نا اہلیت کا شکار ہو جانے والی پولیس کے بعد اب عوام کا حکومتی تفتیشی اداروں سے اعتبار اٹھ گیا ہے جس کے بعد اب ہر قابل ذکر واقعے کی تفتیش جے آئی ٹی کے سپرد کی جانے لگی ہے۔
انگریزی کا ایک محاورہ ہے گند کو قالین کے نیچے چھپا دینا۔ پاکستانی قوم مجموعی طور پر اس محاورے کی اصل تصویر بن چکی ہے۔ ہم ہر گند کو قالین کے نیچے چھپا کر بے فکر ہوجاتے ہیں کہ ہم نے صفائی کر دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اوپر اوپر سے سب صاف نظر آتا ہے مگر ساتھ ساتھ بدبو سے دماغ بھی پھٹا جاتا ہے۔ اصل گند ہمارے قالین کے نیچے ہے اور ہم صفائی کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں۔ ایسے میں ہماری ایک تجویز ہے۔ ہماری حکومت اور ہم خود اپنے بچوں کی حفاظت میں ناکام ہو چکے ہیں۔ کیوں نہ اپنے بچوں کو دشمن سے بچانے کے لیے ہر گلی محلے میں ایک ایک جے آئی ٹی تشکیل دے دی جائے؟
The post ہمیں دشمن سے بچوں کو بچانا ہے appeared first on دنیا اردو بلاگ.
from دنیا اردو بلاگ http://ift.tt/2DRxXjj
No comments:
Post a Comment