Monday, February 26, 2018

غیر انسانی حقوق کے علم بردار

حقوق اور فرائض کا سلسلہ اتنا ہی پرانا ہے جتنا اس زمین پر انسانی نسل پرانی ہے۔ یا یوں کہ لیں کہ جب سے انسانی معاشرہ اس زمین پر قائم ہوا تب سے انسانی حقوق  و فرائض کا آغاز ہو گیا تھا۔ مذہبی طور سے ہم یہ مانتے ہیں کہ موجودہ نسل انسانی آدم و حوا کی اولاد ہیں۔ حوا کو آدم کی پسلی سے پیدا کیا گیا۔ کچھ ناسمجھ لوگ اس بنیاد پر عورتوں کو کم تر سمجھتے ہیں کہ اصل تخلیق آدم ہےاورحوا آدم سے ہی نکالی گئی۔ میں اس کے مذہبی پہلو پر بحث نہیں کرتا کیوں کہ میراعلم اس بارے میں محدود ہے۔ ہم  پسلی کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

پسلی مجموعی طور پر ایک پنجر ہے جو اعضائے رئیسہ کے لیے ایک ڈھال کا کام کرتا ہے۔ پسلی نسبتاً ٹیڑھی اور نرم ہڈی ہوتی ہے۔  کہتے ہیں کہ پسلی کو سیدھا کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ ٹوٹ جاتی ہے۔ یہی بات پسلی سے بنی عورت کے لیے بھی کی جاتی ہےکہ اس کو سیدھا کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئیے ورنہ وہ بھی ٹوٹ جاتی ہے۔ یہ کوئی نہیں سمجھتا کہ پسلی کو یا عورت کو سیدھا کرنا دراصل پسلی اور عورت دونوں کے ساتھ زیادتی ہے۔ پسلی کا ٹیڑھا پن   انسان کے جسم کی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی ضامن ہے کہ انسان کے دل پھیپھڑے معدہ وغیرہ  اس پنجر کے اندر محفوظ ہیں۔  یہی بات پسلی سے نکلی عورت کے لیے بھی کہی جا سکتی ہے کہ عورت  کا ٹیڑھا پن اس کی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ مرد کے لیے بھی ایک ڈھال ہے  جس کے پیچھے مرد محفوظ رہتا ہے۔ جس طرح انسان کے لیے پسلی لازم و ملزوم ہے اسی طرح مرد کے ساتھ عورت لازم و ملزوم ہے۔ اور اسی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ مرد اور عورت دو برابر کی مخلوقات ہیں۔ اور جو ایک کا حق ہے وہ دوسرے کا فرض ہے۔

آج کل انسانی حقوق کے تحفظ کا بہت زور ہے۔ ہر کوئی انسانی حقوق کا تحفظ اور اس کے لیے کام کرنا چاہتا ہے۔ اس میں ذاتی حقوق سے لے کر ذاتیات تک کے حقوق شامل ہیں۔ زیادہ تر کے نزدیک انسانی حقوق سے مراد ان کے اپنے حقوق ہوتے ہیں جنہیں وہ ہر قیمت پر حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنے انسانی حقوق کے حصول کی خاطر بعض اوقات غیر انسانی حد تک حقوق بھی حاصل کر لیتےہیں۔

ہر انسان کا دوسرے انسان پر حق ہے۔ یہ حق کسی بھی شکل میں ہو سکتا ہے۔ میاں بیوی، ماں باپ اور اولاد اور پڑوسی یہ وہ بنیادی رشتے ہیں جن کی بنیاد پر معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ بہن بھائی اور دوست یار  سنت غیر مؤکدہ کی طرح ہیں جو ہوں تو بہت اچھا ہوتا ہے مگر اگر نہ ہوں تو بھی ان کے بغیر زندگی کا سفر جاری رہتا ہے۔  البتہ ماں باپ کے بغیر زندگی بڑھ نہیں سکتی اور اسی طرح اولاد کے بغیر نسل رک جاتی ہے۔ پڑوسی بھی وہ تعلق ہے جس کا ہر ایک سے واسطہ پڑتا ہے کجا یہ کہ آپ ویران صحرا کے بیچوں بیچ سکونت اختیار کر لیں۔ اسی لیے اسلام میں بھی انہی رشتوں اور تعلقات کے سنوارنے پر بہت زور دیا گیا ہے۔ اس مضمون میں انہی کا ذکر کیا جا رہا ہے۔

میاں بیوی کے تعلقات کو لے لیں۔  ایک رشتے میں بندھنے والے دو لوگ جو ایک ساتھ زندگی کا سفر طے کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں دراصل ان کے درمیان حقوق اور فرائض  کی انجام دہی کا معاہدہ ہی طے پاتا ہے۔ بیوی کا اپنے شوہر پر یہ حق ہے کہ شوہر اپنی بیوی کے آرام و سکون کا خیال رکھے۔ بیوی کا یہ حق شوہر کا فرض بن جاتا ہے۔ اسی طرح شوہر کا یہ حق ہے کہ بیوی اس کے ساتھی کی حیثیت سے اس کی زندگی میں ایک فعال کردار ادا کرے۔ یہ بیوی کا فرض ہے۔ اسی ترتیب کو الٹ کر بھی دیکھ لیں۔ ایک ہی بات ہے۔ یعنی میاں بیوی دونوں کا فرض ہے کہ ایک دوسرے کی زندگی میں فعال کردار ادا کریں اور یہی دونوں کا فرض بھی ہے۔ اسی طرح ایک دوسرے کو آرام اور سکون مہیا کرنا بھی دونوں کا حق اور فرض ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایک فریق اپنا فرض ادا نہ کرے مگر اپنے حقوق کی طلبی پر مصر رہے۔ یہ غیر انسانی رویہ کہلائے گا اور اس طرح جو فریق اپنے فرائض ادا کیے بغیر اپنے حقوق کا طلب گار ہو گا  اصل میں وہ غیر انسانی حقوق کا علم بردار کہلائے گا۔

ماں باپ اور اولاد کے تعلقات کی بات کر لیں۔ جو ماں باپ کا حق ہے وہ اولاد کا فرض ہے اور اسی طرح جو اولاد کا حق ہے وہ ماں باپ کا فرض ہے۔ چناچہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کی حفاظت، نشو نما، تربیت اور تعلیم اس بچے کا بنیادی انسانی حق ہے۔ اور یہ والدین کا فرض ہے۔ اسی طرح والدین کا حق ہے کہ ان کی اولاد معاشرے کے ایک اچھے فرد کے طور پر سامنے آئےاور ماں باپ کے بڑھاپے میں ان کا خیال کرنے والی ہو۔ یہ اولاد کا فرض ہے۔ اگر ماں باپ اولاد کی حفاظت میں کوتاہی کریں۔ اس کی نشو نما سے لاپروائی اختیار کریں۔ اس کو اچھی تربیت اور معیاری تعلیم فراہم نہ کریں لیکن توقع رکھیں کے بچہ معاشرے میں مثبت کردار ادا کرے گا تو یہ توقع اور مطالبہ غیر انسانی کہلائے گا۔ اسی طرح ماں باپ کی جانب سے اپنے فرائض کی بہترین انجام دہی کے بعد اگر اولاد منفی رویوں کو فروغ دینے کا باعث بنے اور بڑھاپے میں ماں باپ کا خیال کرنے کے بجائے ان کے لیے زحمت کا باعث بن جائے تو یہ بھی ایک غیر انسانی رویہ کہلائے گا۔ یعنی اپنے فرائض ادا نہ کرنے والا  مگر اپنے حقوق کے حصول پر مصر فرد غیر انسانی حقوق کا علم بردار ہو گا۔

اس کے بعد پڑوسیوں سے تعلقات کی بات کرلیں۔ اسلام میں پڑوسیوں کے حقوق پر بہت زور دیا گیا ہے۔ پڑوسیوں کے حقوق کیا ہیں؟ پڑوسی کا سب سے پہلا اور بنیادی حق یہ ہے کہ آپ کی جانب سے اس کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ یہ اس کا حق ہے اور یہ آپ کا فرض ہے۔ اور یہی آپ کا حق ہے۔ وہ لوگ جو اپنے پڑوسی کے گھر کے سامنے گند پھیلائیں یا اپنے پڑوسی کی زمین پر غاصبانہ قبضہ کر لیں یا ان کے ساتھ بدزبانی کریں یا ان کو کسی قسم کی تکلیف پہنچائیں وہ دراصل اپنے فرائض سے روگردانی کر رہے ہوتے ہیں۔ ایسا کرتے وقت وہ یہ خیال نہیں کرتے کہ وہ پڑوسی کی حق تلفی کر رہے ہیں مگر اپنا حق انہیں ہر بات میں یاد رہتا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ پڑوسی اپنے فرائض پوری طرح انجام دیں۔ یہ غیر انسانی رویہ ہے اور ہمارے معاشرے میں ان غیر انسانی حقوق کے بہت سے علم بردار موجود ہیں۔

سوال صرف ایک ہے۔ اور وہ یہ کہ کیا حقوق اور فرائض کی اس جدوجہد میں ہم انسانی حقوق کے علم بردار ہیں یا غیر انسانی حقوق کے؟  اپنے اپنے رشتوں کی بنیاد پر اس تحریر کی روشنی میں اپنے آپ کو پرکھیے۔ آپ کا جواب آپ کے رونگٹے کھڑے کر دے گا۔

 

The post غیر انسانی حقوق کے علم بردار appeared first on دنیا اردو بلاگ.



from دنیا اردو بلاگ http://ift.tt/2EOAz1A

No comments:

Post a Comment

May or later: Rocket Lab may launch a small probe to Venus

By Unknown Author from NYT Science https://ift.tt/OPbFfny