Monday, February 26, 2018

ن کی نا اہلی

“ن” اردو کی حروف تہجی کا اکتیسواں حرف ہے۔ اس سے پہلے “م” اور اس کے بعد “و” آتا ہے۔ “م” سے مصیبت اور “و” سے وقت ہوتا ہے۔ اور “ن” سے نام شروع کرنے والے نواز شریف پر کچھ عرصے سے مصیبت کا وقت چل رہا ہے۔ چونکہ “م” “ن” سے پہلے ہے اس لیے مصیبت بھی نواز شریف سے پہلے ہی شروع ہو گئی تھی۔ نواز شریف کا ماضی اس بات کا گواہ ہے۔ بھٹو دور میں شریف خاندان کا کاروبار قومیا لیا گیا تھا۔ اس مصیبت کے بعد شریف خاندان نے سیاست کا رخ کیا اور نواز شریف کو سیاست میں جنرل ضیا ءالحق کی چھتری تلے داخل کیا گیا۔ ایک آمر کے کندھوں پر سوار ہو کر سیاست میں داخل ہونا پاکستان پر پڑنے والی پرانی مصیبت ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو بھی اسی طرح سیاست میں آئے تھے۔

لیکن “و” سے وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا۔چناچہ وقت بدل گیا اور نواز شریف “ن” سے نوے کی دہائی میں نہ کر کے “م” سے مقبول جمہوری راہنما بن گئے۔ دلچسپ بات مگر یہ ہے کہ ان کی جمہوریت ان کے اپنے گرد گھومتی رہی اسی لیے مسلم لیگ کے بعد “ن” لگا کر مسلم لیگ ن بنا لی گئی۔ مگر یاد رہے کہ “ن” سے پہلے “م” ہوتا ہے۔ چناچہ 1993 میں نواز شریف کی پہلی حکومت ماسبق کر دی گئی۔ الزامات اختیارات کے ناجائز استعمال اور بدعنوانی کے تھے۔ وقت ایک بار پھر بدلا اور 1997 میں مسلم لیگ ن کو پھر بھاری اکثریت سے اقتدار ملا۔ مگر “م” نے یہاں بھی پیچھا نہ چھوڑا۔ مشرف بھی “م” سے ہوتا ہے اور “م” “ن” سے بہرحال پہلے ہی ہوتا ہے۔ “ن” اور “م” کی کشمکش میں “م” غالب آیا اور “ن” کا نقطہ نکل گیا۔ “ن” کو “ں” یعنی ن غنہ کر دیا گیا۔ مصیبت کا یہ زمانہ سعودی عرب میں کاٹنا پڑا۔

کہتے ہیں کہ انسان تجربوں سے سیکھتا ہے۔ مگر نواز شریف کو دیکھتے ہوئے اس کہاوت پر یقین کرنا مشکل ہے۔ ماضی میں بارہا اداروں سے ٹکراؤ کے باعث “ن” پر مصیبت آتی رہی مگر نواز شریف مسلسل اسی راہ پر گامزن رہے۔ تیسری مرتبہ قوم نے “م ” سے محبت کا اظہار کیا اور “ن” سے نواز شریف کو ایک بار پھر اقتدار کی کرسی پر لا بٹھایا۔ وقت بدل گیا۔ مگر وقت ایک بار پھر بدل گیا اور پانامہ پیپرز میں ان کے بچوں کی آف شور کمپنیاں اور ان آف شور کمپنیوں کی ملکیت میں لندن کے فلیٹس نکل آئے۔ مصیبت ایک بار پر سر پر آن پہنچی۔ فلیٹ کی ملکیت کا الزام لگا “م” سے مریم نواز پر اور ایک بڑی مصیبت کھڑی ہو گئی کیونکہ مریم نواز اس واقعے سے پانچ برس قبل لندن کی کسی قسم کی پراپرٹی کا ٹی وی انٹرویو میں انکار کر چکی تھیں۔

ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر آپ کا نام “ن” پر ختم ہوتا ہو تو “م” سے مصیبت آپ کو اتنا تنگ نہیں کرتی۔ بلکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس کا نام “ن” پر ختم ہو وہ مصیبت کا باعث بن جاتا ہے۔ حسین نواز نے ایک ٹی وی انٹرویو میں الحمدللہ کی تکرار کے ساتھ لندن فلیٹس کی ملکیت قبول کر لی اور کہانی شروع ہو گئی۔ جس کا نام “ن” پر ختم ہو اس کو مصیبت اتنا تنگ نہیں کرتی چناچہ حسین نوازاور حسن نواز تو چپکے سے نکل گئے اور میدان میں رہ گئے نواز شریف اور مریم نواز۔ مریم نواز کا نام “م” سے شروع اور “م” پر ہی ختم ہوتا ہے چناچہ وہ دوہری مصیبت میں پھنس گئیں۔ ٹی وی انٹرویو میں انکار کے بعد انہوں نے کیلبری فونٹ والی ایک دستاویز عدالت میں جمع کروا دی جو فارنزک ماہر نے جعلی قرار دے دی۔ اب مریم نواز کو جعلسازی کے مقدمے کا سامنا ہے۔ اگر یہ مقدمہ ثابت ہو جاتا ہے تو ان کا سیاسی کیریئر اپنی پرواز سے پہلے ہی مصیبت کا شکار ہو جائے گا۔ وقت ان کے لیے کچھ زیادہ موافق دکھائی نہیں دے رہا۔

ایک صاحب اور بھی ہیں اور ان کا نام عمران خان ہے۔ عمران کا نام “ن” پر ختم ہوتا ہے۔ ہم کہ سکتے ہیں کہ جہاں سے عمران خان کی ختم ہوتی ہے وہاں سے نواز شریف کی شروع ہوتی ہے مگر وقت کبھی کبھار الٹ بھی جاتا ہے۔ چناچہ اب یہ صورت حال ہے کہ جہاں سے نواز شریف شروع کرتے ہیں وہیں پر عمران خان لا کر ختم کر دیتے ہیں۔ “ن” سے نالائقی بھی ہوتا ہے۔ نواز شریف “ن” کی ابتدا ہیں تو عمران خان انتہا۔ درمیان کا کوئی راستہ ہی نہ چھوڑا اور معاملہ پہنچ گیا سپریم کورٹ میں۔ پانامہ کا مقدمہ چلا۔ پوری قوم نے تقریباً سات ماہ یہ نہایت غیر متاثر کن تماشہ دیکھا۔ اور بالآخر سپریم کورٹ نے نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے لیے “ن” سے نا اہل کر دیا۔ اس مرتبہ “ن” اور “م” مل گئے ۔ نااہلی بھی ایک مصیبت ہی ہوتی ہے۔

اس وقتی مصیبت کے دھچکے سے سنبھل کر مسلم لیگ ن سر جوڑ کر بیٹھی اور “ن” کو بچانے کے لیے پارلیمنٹ میں ایک ترمیم لے کر آئی جس کے تحت مسلم لیگ ن کا “ن” مسلم لیگ ن کے سر کا تاج رہ سکتا تھا۔ عمران خان کو یہ بھی گوارا نہ تھا چناچہ اور بہت سے حضرات کے ساتھ وہ ایک بار پھر سپریم کورٹ جا پہنچے اور سپریم کورٹ نے بالآخر مسلم لیگ ن سے “ن” بھی نکال دیا۔گویا یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسلم لیگ ن سے “ن” کو نااہل کر دیا گیا ہے۔

“ن” یعنی نواز شریف اپنی ن سے نااہلی کو ماننےکو تیار نہیں اور اپنے “ن” کو واپس مسلم لیگ کے سرکا تاج بنانا چاہتے ہیں۔ جبکہ ن سے نالاں ان کی مخالف سیاسی جماعتیں نہال ہیں کہ مسلم لیگ میں سے ن کے نکلنے کے بعد مسلم لیگ خطرے میں ہے۔ اس صورت حال میں نواز شریف ناراض ہیں اور نظام عدل کو اپنے نشانہ پر رکھے ہوئے ہیں۔ جبکہ اپوزیشن جماعتیں اپنا نشانہ کامیاب ہونے کی خوشی میں ناچ گا رہی ہیں۔ وہ یہ بالکل نہیں سوچ رہیں کہ “م” بہرحال “ن” سے پہلے ہوتا ہے اور “م” سے مصیبت کسی وقت اور کسی پر بھی آ سکی ہے۔ “و” سے وقت بدلتے دیر نہیں لگتی۔ نواز شریف کا وقت دیکھتے ہی دیکھتے بدل گیا۔ باقیوں کا وقت بھی بدل سکتا ہے۔

سب سے ضروری بات جو یاد رکھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان بھی “ن” پر ختم ہوتا ہے۔ اپنی اپنی سیاسی بازیگریوں میں مصروف ملک کے تمام سیاستدانوں کو یہ بات مد نظر رکھنی چاہیے کہ ان کی نالائقی اور ذاتی مفاد پر مبنی سیاست کہیں پاکستان کے لیے مصیبت کا وقت لانے کا پیش خیمہ نہ بن جائے۔ اس کا لازمی خیال رکھا جائے۔ باقی “م” “ن” اور “و” کا کھیل بے شک چلتا رہے۔ قوم کو ایسے تماشے دیکھنے کا بہت شوق ہے۔

 

The post ن کی نا اہلی appeared first on دنیا اردو بلاگ.



from دنیا اردو بلاگ http://ift.tt/2EVhH0Q

No comments:

Post a Comment

May or later: Rocket Lab may launch a small probe to Venus

By Unknown Author from NYT Science https://ift.tt/OPbFfny