اردو ادب سے دلچسپی رکھنے والے جانتے ہیں کہ جیسے قحط الرجال کی اصطلاح پڑھتے ہی ذہن آواز دوست کی طرف جاتا ہے اسی طرح علم الرجال کی اصطلاح سنتے ہی صحاح ستہ کا خیال آتا ہے۔ تاہم نہ تو اس مضمون کا تعلق آواز دوست یا صحاح ستہ سے ہے اور نہ ہی یہ اصطلاحات محض ان کتابوں کیلیے مخصوص ہیں۔ چونکہ عربی کی یہ دونوں اصطلاحات اردو (ادب) میں بھی مستعمل ہیں اور یہ کہ اردو میں عربی کی ال(الف لام) کا مناسب متبادل دستیاب نہیں ہے اس لیے اردو میں بھی ان عربی اصطلاحات کو مستعار لے لیا جاتا ہے۔
قحط الرجال کا لفظی مطلب تو ہے ‘آدمیوں کا قحط’ لیکن علامتی طور پر اس سے مراد ہے لوگوں کے ایک جم غفیر میں بھی اچھے انسانوں کی کمی۔ یعنی ایک ایسی صورتحال جس میں آبادی میں مسلسل اضافے کے باوجود باصلاحیت اور قابلِ استداد لوگوں کی تنگ سالی برقرار رہے۔ مختار مسعود نے اپنی کتاب آواز دوست کے دوسرے طویل مضمون، جس کا عنوان بھی “قحط الرجال” ہی ہے، میں بڑے دلپذیر انداز میں اس اصطلاح کی تفسیر کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
“قحط میں موت ارزاں ہوتی ہے اور قحط الرجال میں زندگی۔ مرگ انبوہ کا جشن ہو تو قحط ، حیات بے مصرف کا ماتم ہو تو قحط الرجال۔ ایک عالم موت کی ناحق زحمت کا اور دوسرا زندگی کی ناحق تہمت کا۔ ایک سماں حشر کا اور دوسرا حشرات الارض کا۔ زندگی کے تعاقب میں رہنے والے قحط سے زیادہ قحط الرجال کا غم کھاتے ہیں”
علم الرجال کا لفظی مطلب ہے آدمیوں کا علم, لیکن اصل میں اس سے مراد ایک ایسا سائنسی فن ہے جس میں روایات کو بیان کرنے والوں کے صادق و امین ہونے کا تعین کیا جاتا ہے۔ یعنی اگر کوئی شخص کوئی واقعہ بیان کر رہا ہے، کہانی سنا رہا ہے، کسی سنی سنائی بات کو آگے پھیلا رہا ہے، یا کسی سے کوئی بات منسوب کر رہا ہے تو اس کی بات پر بغیر سوچے سمجھے یقین کرنے کی بجائے علم الرجال کی روشنی میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ شخص کتنا دیانتدار اور قابلِ اعتماد (ثقہ) ہے۔ اس علم میں راوی کے حالات واقعات، پیدائش و وفات، اساتذہ و تلامذہ کی تفصیلات، حصول علم کے لیے کی گئی کاوشیں اور اسی طرح کی دیگر خصوصیات کا تفصیلی جائزہ لیا جاتا ہے اور پھر اس کی بیان کردہ روایات کو مکمل یا جزوی طور پر قبول کیا جاتا ہے یا پھر مسترد کر دیا جاتا ہے۔
علم الرجال کی ایجاد کا سہرا محدثین کے سر ہے جنہوں نے انتہائی عرق ریزی سے نہ صرف اس کی بنیاد رکھی بلکہ اس کا عملی اطلاق خیرالعالمین سے منسوب روایات پر اس طرح کر کے دکھایا کہ روایات کو صحاح ستہ یعنی احادیث کی چھ مستند کتابوں کی صورت میں مرتب کر دیا۔ ساتھ ہی اِس علم کی بنیاد پر رویات کی درجہ بندی بھی کر دی تاکہ مستقبل کے محققین کو انہیں آزادانہ طور پر پرکھنے اور ان پر مزید تحقیق کرنے میں مدد ملتی رہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ علم الرجال کو مزید وسعت دی جاتی اور اس کا اطلاق نہ صرف دوسرے شعبہ ہائے زندگی پر کیا جاتا بلکہ عام لوگوں کو بھی اس سے روشناس کرایا جاتا۔ لیکن اس کے برعکس یہ علم صحاحِ ستہ تک محدود ہو کر رہ گیا اور عملی طور پر احادیث پر مزید تحقیق کے دروازے بند کر دیے گئے۔ آج اس بات پر تو شاید غور ہو سکتا ہے کہ محدثین نے اپنی تحقیق کا کوئی تنقیدی جائزہ پیش کیا تھا یا نہیں لیکن ان کی اکٹھی کی ہوئی روایات کو مزید پرکھنا یا ان کے بارے میں سوال اٹھانا شجرِ ممنوعہ بن کر رہ گیا ہے۔
غلط بیانی، افواہ سازی یا سنی سنائی باتوں کو آگے پھیلانے (sharing as received) کی علت رکھنے والے لوگ تو ہمیشہ سے ہی ہر معاشرے میں پائے جاتے رہے ہیں۔ تاہم علم الرجال کی ایجاد اور پھر احادیث پر اس کا اطلاق ثابت کرتا ہے کہ لوگ اس ہستی سے بھی غلط روایات منسوب کرنے سے باز نہیں آتے جس سے منسوب کرتے ہوئے یارِ غار اور شاہکارِ رسالت بھی حد درجہ محتاط رہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان سے منسوب روایات بہت کم ہیں۔
معاشرتی ذرائعِ ابلاغ (social media) کی زبردست ترقی کے ساتھ ساتھ جعلی خبریں پھیلانے اور بے پر کی اڑانے والے بھی اس کا بے دریغ منفی استعمال جاری رکھے ہوئے ہیں۔ عوام تو خیر وہی بات قبول کرتے ہیں جو ان کے اعتقاد سے مطابقت رکھتی ہے لیکن وہ طبقہ جسے رہبر و دانشور اور عالم ہونے کا دعویٰ ہے وہ بھی سنی سنائی باتوں کو بلا تحقیق آگے پھیلاتا ہے اور یوں دانستہ و نادانستہ علم الرجال کا مذاق اڑاتا پایا جاتا ہے۔ آج مختلف ذرائع ابلاغ کے سہارے جس طرح عام لوگوں کی ذہنی صفائی (brain washing) کا کام جا ری ہے، ایسے میں علم الرجال کی اہمیت بہت نمایاں ہو کر سامنے آتی ہے. لیکن علم الرجال میں ہنوز قحط الرجال کا دور دورہ ہے۔
The post قحط الرجال فی العلم الرجال appeared first on دنیا اردو بلاگ.
from دنیا اردو بلاگ https://ift.tt/2HVVK2I
No comments:
Post a Comment