from More Top Stories - Google News https://ift.tt/2Iw1LB7
Sunday, September 30, 2018
Local officials: No victim reports filed in Kavanaugh case
from More Top Stories - Google News https://ift.tt/2Iw1LB7
The Latest: India's FM says Pakistan harbors terrorists
from More Top Stories - Google News https://ift.tt/2NOEqjQ
David Wright, incomparable ambassador, earned every minute of his night
from More Top Stories - Google News https://ift.tt/2RbajB9
Panic in Central Park: Noise at Global Citizen Festival Was Fallen Barrier, Not Gunshots
from More Top Stories - Google News https://ift.tt/2y1591R
Typhoon Trami drenches southern Japan as it marches toward mainland
|
from More Top Stories - Google News https://ift.tt/2OkhAAa
Baby found dead in hot SUV outside gas station near Sanford; mother being questioned
from More Top Stories - Google News https://ift.tt/2xMC0YN
How the USA is going to end its 25-year Ryder Cup drought in Europe
from More Top Stories - Google News https://ift.tt/2Iobvxe
JR Smith says NBA threatening to fine him over tattoo
|
from More Top Stories - Google News https://ift.tt/2y9fpW3
Kanye Storms “SNL” With 3 Wild Performances, Political Speech: Watch
from More Top Stories - Google News https://ift.tt/2P0rFiO
Tennessee State football player in critical condition after collapsing on sideline vs. Vanderbilt
from More Top Stories - Google News https://ift.tt/2NRDsDt
Elon Musk reaches deal over tweets about taking Tesla private
from BBC News - World https://ift.tt/2Is1fUm
Indonesia tsunami: Rescuers dig through rubble for survivors
from BBC News - World https://ift.tt/2y3r4W4
Kanye West: Rapper changes his name to Ye
from BBC News - World https://ift.tt/2y10Zaj
Brett Kavanaugh: FBI contacts Deborah Ramirez for interview
from BBC News - World https://ift.tt/2y9Gkkz
North Korea 'won't disarm if sanctions continue', minister says
from BBC News - World https://ift.tt/2RbnBxp
Jair Bolsonaro: Large protests against Brazil election front-runner
from BBC News - World https://ift.tt/2Ipwuj2
HIV/Aids: China reports 14% surge in new cases
from BBC News - World https://ift.tt/2QfQsiQ
Egypt sentences activist for 'spreading fake news'
from BBC News - World https://ift.tt/2xMrMYB
Danish police free manhunt suspects in death threat case
from BBC News - World https://ift.tt/2DFcV7J
Turkey's Erdogan opens mosque in German city of Cologne
from BBC News - World https://ift.tt/2zFeYok
Lindsay Lohan under fire for 'bizarre' Instagram video
from BBC News - World https://ift.tt/2DHrBDr
Jefferson Airplane's Marty Balin dies aged 76
from BBC News - World https://ift.tt/2xMQGHA
Trump on Kim Jong-un: 'We fell in love'
from BBC News - World https://ift.tt/2DRZy4j
Special words that don't exist in English (yet)
from BBC News - World https://ift.tt/2y3GHg7
Protesters throw paint at police in Barcelona
from BBC News - World https://ift.tt/2xLHIdp
Indonesia tsunami: Coastal Palu city hit after strong quake
from BBC News - World https://ift.tt/2DDHfQ8
Republican Senator Flake cornered by sexual assault survivor
from BBC News - World https://ift.tt/2xXNWGE
Why are Hong Kong domestic workers practising their dance moves?
from BBC News - World https://ift.tt/2Qi4gt4
Who is Elon Musk?
from BBC News - World https://ift.tt/2QiaYQ7
Malia Obama appears in New Dakotas' music video
from BBC News - World https://ift.tt/2xYrT2B
Ryder Cup spectator hit by wayward shot
from BBC News - World https://ift.tt/2NM5IYe
Archaeologists unearth Roman road in Netherlands
from BBC News - World https://ift.tt/2Ip4GeD
What will the FBI inquiry into Kavanaugh actually do?
from BBC News - World https://ift.tt/2DHjJSi
Rudolf Nureyev: How the dance legend continues to inspire
from BBC News - World https://ift.tt/2xM3PAJ
Brazil indigenous group bets on 'golden fruit'
from BBC News - World https://ift.tt/2DHZ7JL
Why Hollywood writer Ubah Mohamed hated her name
from BBC News - World https://ift.tt/2OYNOxS
India airports: Has PM Modi built more than others?
from BBC News - World https://ift.tt/2xUBrMX
Racism and stereotypes in colonial India’s 'Instagram’
from BBC News - World https://ift.tt/2NQHegk
فیشن پاکستان ویک2018 ، جدید فیشن سے ہم آہنگ عروسی ملبوسات
from Samaa Urdu News https://ift.tt/2xLQ455
Fox News Breaking News Alert
Trump speaks at rally in West Virginia
09/29/18 7:22 PM
Fox News Breaking News Alert
Elon Musk to step down as chairman of Tesla, pay $20M in penalties in SEC settlement
09/29/18 6:03 PM
Fox News Breaking News Alert
Trump orders ‘supplemental’ FBI investigation into Kavanaugh
09/28/18 5:06 PM
خوابوں کی تعبیر
بنجر علاقے میں درخت لگانا
عزت سلیم، لاہور
خواب :۔ میں نے خواب دیکھا کہ میں ایک خشک جگہ پہ کھڑی ہوں دور دور تک کوئی سایہ نہیں اور گرمی کافی ھے۔اگلے ہی لمحے میں دیکھتی ہوں کہ میں اپنی دوستوں کے ساتھ مل کہ اس علاقہ میں درخت لگا رہی ہوں اور ساتھ ہی دیکھتی ہوں کہ وہ جگہ بہت ہری بھری ہو گئی ہے۔ ہر طرف سبزہ ہے اور لہلہاتے درخت ۔ سب لوگ بہت خوش ہوتے ہیں اور میں بھی یہ سب دیکھ کہ بہت خوش ہوتی ہوں۔
تعبیر:۔ اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاھر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی مہربانی سے آپ کی عزت اور وقار میں اضافہ ہو گا۔دوست آپ کے معاون رہیں گے۔ آپ نماز کی پابندی ضرور رکھیں۔
بیل گم ہو جاتا ہے
حرا پروین، لاہور
خواب : میرے ابو نے خواب میں دیکھا کہ ہم ایک بیل خرید کر لائے ہیں اور ہم نے اس کو اپنے صحن میں باندھ دیا ہے۔ ہمسائے وغیرہ بھی آ کر ہم کو مبارک دیتے ہیں ۔ پھر میں اس کے آگے چارہ ڈالتی ہوں مگر وہ کھاتا نہیں ۔کچھ دیر بعد ہم دیکھتے ہیں کہ وہ کہیں نہیں ہے۔ ہم سارا علاقہ دیکھتے ہیں مگر وہ کہیں نہیں ہوتا۔
تعبیر:۔ یہ خواب اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کسی قسم کی پریشانی کا سامنا ہو سکتا ہے۔کاروبار اور نوکری میں مالی پریشانی کا بھی سامنا ہو سکتا ہے۔آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور ہر نماز کے بعد کثرت سے استغفار پڑھا کریں ۔ ممکن ہو سکے تو کچھ صدقہ و خیرات کریں۔ چھت پہ پرندوں کو دانہ ڈالنے کا بھی اہتمام کیا کریں۔
تحفے میں قلم ملنا
امجد بٹ،گوجرانوالہ
خواب : میں نے خواب میں دیکھا کہ ہم اپنی نانی کے گھر گرمیوں کی چھٹیوں میں آئے ہوئے ہیں ۔ یہاں میری خالہ بھی آئی ہوئی ہوتی ہیں اور سب بچوں کے لئے تحفے لے کر آئی ہوتی ہیں۔ مجھے بہت خوبصورت قلم ملتا ہے جس سے میں قرآن پاک کی آیات لکھتا ہوں ۔ سب لوگ یہ دیکھ کر بہت خوش ہوتے ہیں اور میں خود بھی حیران ہو رہا ہوتا ہوں کہ اتنی خوبصورتی سے میں نے کیسے لکھ لیا۔
تعبیر:۔ اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے بزرگی عطا ہو گی۔ علم و حکمت ملے گی۔ دینی و روحانی معاملات میں ترقی ہو گی ۔آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور تلاوت قرآن پاک کو باقاعدگی سے جاری رکھیں۔کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔
بازار سے تیل خریدنا
اسماء امین،لاہور
خواب :۔ میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنی ساس کے گھر گئی ہوئی ہوں وہاں پہ میرے دیور کی فیملی بھی آئی ہوئی ہے اور نند بھی ۔ میری ساس مجھے اور میری نند کو کچھ سامان لانے کو پیسے دیتی ہیں ۔ میں اور میری نند بازار جاتے ہیں اور سامان لے کر آتے ہیں ۔ اور وہ سارا کا سارا تیل پہ ہی مشتمل ہوتا ہے۔گھر آ کر جب میری ساس اس تیل کو دیکھتی ہیں تو بہت خوش ہوتی ہیں ۔ برائے مہربانی اس کی تعبیر بتا دیں۔
تعبیر : اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ کی رحمت سے آپ کی عزت اور وقار میں اضافہ ہو گا۔ نیک نامی میں اضافہ ہو گا جو کاروبار یا نوکری یا پھر گھریلو سطح پہ بھی ہو سکتی ھے۔ آپ صلہ رحمی سے کام لیا کریں۔ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں۔کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔
دوستوں کے ساتھ دعوت اڑانا
فرقان علی، لاہور
خواب :۔ میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے دوستوں کے ساتھ کہیں کسی خوبصورت سی جگہ پہ موجود ہوں اور ہم سب کھانا کھانے کے لئے اس جگہ آئے ہیں۔ پھر ایک آدمی آتا ہے اور میرے سامنے ایک خوان رکھ دیتا ہے جس میں تیتر تلے ہوئے رکھے ہوتے ہیں۔ میں اپنے دوستوں کو بھی اس میں شامل ہونے کی دعوت دیتا ہوں اور ہم سب اس کھانے سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور انتہائی مزے لے کر کھاتے ہیں۔ اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی ۔
تعبیر: اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی مہربانی سے آپ کے رزق میں اضافہ ہو گا۔ وسائل میں بھی بہتری آئے گی۔آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔
درخت سے انار توڑ کر کھانا
معین وقار، شورکوٹ
خواب :۔ میں نے خواب دیکھا کہ میں کسی درخت سے انار توڑ کر کھا رہا ہوں اور اپنے گھر والوں کو بھی توڑ توڑ کہ دیتا ہوں وہ سب بھی انتہائی مزے لے کر کھاتے ہیں۔ اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔
تعبیر:۔ اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی مہربانی سے آپ کے رزق میں اضافہ ہو گا۔ وسائل میں بھی بہتری آئے گی۔آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔
لذیذ کھانے
احمد مرتضیٰ، لاہور
خواب :۔ میں نے خواب دیکھا کہ میں اکیلا کہیں کسی کمرے میں بیٹھا ہوں اور وہاں ایک میز پہ انواع و اقسام کے کھانے پڑے ہوئے ہیں جن سے انتہائی خوشبو اٹھ رہی ہے۔ بلکہ کئی کھانے تو ایسے تھے جو کبھی دیکھے نہ کھائے۔ میں ادھر انتھائی بے تکلفانہ انداز میں بیٹھ جاتا ہوں اور مزے لے لے کر انتھائی لذیذ کھانے کھاتا ہوں۔ دل میں مسلسل خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے ھم کو یہ نعمت دی۔ وہ خوشی سکون اور مزہ میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ برائے مہربانی اس کی تعبیر بتا دیں ۔
تعبیر: اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی مہربانی سے آپ کے رزق میں اضافہ ہو گا۔ کاروبار میں وسعت ہو گی اور برکت بھی۔ وسائل میں بھی بہتری آئے گی ۔آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔
سسر گندگی میں لتھڑے ہوتے ہیں
ماریہ قبطیہ، وزیرآباد
خواب :۔ میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے سسرال کے ساتھ کسی گاوں میں کوئی شادی اٹینڈ کرنے آتی ہوں۔ میرے سارے سسرال والے وہاں خوشی خوشی رہتے ہیں مگر مجھے گاوں میں بنیادی سہولیات کے بنا کافی مشکل ہو رہی ہوتی ہے۔ ایک دن میرے سسر باہر جا رہے ہوتے ہیں کہ کہیں گندگی میں سارے لتھڑ کر گھر آتے ہیں۔ ان کے پاس سے شدید بو آ رہی ہوتی ہے۔ بس اس کے بعد میری آنکھ کھل جاتی ہے۔
تعبیر :۔ یہ خواب اللہ نہ کرے پریشانی و حرام مال کو ظاہر کرتا ہے۔کاروباری معاملات میں قناعت اور ایمانداری کا مظاہرہ کریں۔ سب لوگ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور ہر نماز کے بعد کثرت سے استغفار بھی کیا کریں اور اللہ کے حبیبﷺ کی سیرت پر عمل کریں۔
گاؤں میں خالی گھر
عمران کبیر، بورے والا
خواب : ۔ میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے گھر گاوں گیا ہوں۔ اس خالی گھر میں ہر طرف ابتری پھیلی ھوئی ہوتی ہے اور جیسے پورے گھر میں اس کا غبار پھیلا ہوا ہے۔ جبکہ ہم اس گھر میں رہتے بھی نہیں اور نہ ہی ادھر کچھ خاص سامان موجود ہے۔
تعبیر:۔ یہ خواب ظاہر کرتا ہے کہ مالی معاملات میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ غیر ضروری اخراجات یا اصراف اس کا سبب ہو سکتا ہے۔کاروبار میں بھی رقم بلاک ہونے کا احتمال ہے۔ اس سے اللہ نہ کرے کہ قرض تک کی نوبت آ سکتی ہے۔ آپ حلال روزی کا اہتمام کریں اور نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔ صدقہ وخیرات بھی حسب توفیق کرتے رہا کریں۔
سفید بکری خریدنا
ارسلان بیگ ، لاہور
خواب :۔ میں نے خواب دیکھا کہ میں کسی منڈی جیسی جگہ پر ہوں اورکوئی جانور خریدنا چاہتا ہوں ، حالانکہ نہ تو بکرا عید ہے اور نہ ہی گھر میں کوئی فنکشن ہے پھر بھی میں خود کو ادھر پاتا ہوں۔کافی دیر بعد مجھے ایک سفید رنگ کی خوبصورت سی بکری پسند آ جاتی ہے۔ میں ان بزرگ سے بھاؤ تاؤ کرتا ہوں۔ اب آگے مجھے یاد نہیں مگر یہ ضرور یاد ہے کہ میں گھر آ کر اس سفید بکری کو لا کر بہت خوش ہو رہا ہوتا ہوں اور حیران اس کے ساتھ ملنے والے ایک سفید بیگ پہ ہوتا ہوں جس میں ایک گائے کی کھال موجود ہوتی ھے۔ میں ان دونوں چیزوں کی موجودگی سے کافی خوشی محسوس کر رہا ہوتا ہوں اور مسلسل اس پر اپنی انگلیاں پھیر کر خوش ہو رہا ہوتا ہوں ۔
تعبیر :۔ بہت اچھا خواب ہے جو کہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ کی مہربانی و فضل سے حلال طریقے سے رزق میں اضافہ ہو گا اور مالی طور پہ مستحکم ہوں گے۔ آپ چاہے کاروباری ہوں یا نوکری میں، سب میں آسانی ہو گی۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔ ممکن ہو سکے تو حسب استطاعت صدقہ و خیرات کیا کریں ۔
ریچھ حملہ کر دیتا ہے
مدیحہ سلمان، لاہور
خواب :۔ یہ خواب میرے بھائی نے دیکھا کہ ہم سب کسی پہاڑی مقام پہ چھٹیاں گزارنے گئے ہوئے ہیں اور ایک دن وہاں پہ سب بچے گراونڈ میں کھیل رہے ہوتے ہیں کہ ادھر ایک ریچھ جنگل سے نکل آتا ہے۔ یہ دیکھ کر سب بچے چیخنے لگ جاتے ہیں۔ ریچھ تیزی سے ہماری طرف بڑھتا ہے اور سب ڈر کہ مختلف سمتوں میں بھاگتے ہیں۔ برائے مہربانی اس کی تعبیر بتادیں۔
تعبیر:۔ خواب ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کسی بیماری یا ناگہانی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔گھر کے کسی فرد کی بیماری کی وجہ سے گھر میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے یا پھر نوکری یا کاروباری معاملات میں کسی پریشان کن صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ مالی معاملات بھی اس سے متاثر ہوں گے۔گھر کے سب لوگ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔کسی منگل یا ہفتہ کو ظہر کی نماز کے بعد کالے چنے یا کالے ماش کسی مستحق کو دے دیں۔
گھوڑے سے گرنا
صوفیہ تبسم،لاہور
خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں کسی دوست کے ساتھ اس کے فارم ہاوس پہ آئی ہوئی ہوں۔ وہاں ان لوگوں نے گھوڑے بھی رکھے ہوئے ہیں۔ میری دوست مجھ سے گھڑ سواری کا کہتی ہے تو میں اس کو یہ نہیں بتاتی کہ میں نے اس سے پہلے کبھی گھوڑے کی پشت پہ سواری نہیں کی بلکہ اس کے ساتھ دوسرے گھوڑے پہ سوار ہو جاتی ہوں ۔ مگر جیسے ہی وہ دوڑتا ہے میں نیچے گر جاتی ہوں اور وہ میرے اوپر سے گزرتا چلا جاتا ہے۔ اس کے بعد سب لوگ اکھٹے ہو جاتے ھیں جو مجھے اٹھانے اور ہسپتال لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے بعد مجھے یاد نہیں ۔
تعبیر : ۔ اس سے ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کسی بیماری یا ناگہانی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نوکری یا کاروباری معاملات میں کسی پریشان کن صورتحال کا سامنا کرنا پڑ ے۔ مالی معاملات بھی اس سے متاثر ہوں گے۔گھر کے سب لوگ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔ صدقہ خیرات بھی کریں۔
سکول میں تلاوت کرنا
منیرہ علی، اسلام آباد
خواب ؛ ۔ میں نے دیکھا کہ میں اپنے سکول کی اسمبلی میں کھڑی ہوں اور جو بچہ اسمبلی میں تلاوت کر رہا ہوتا ہے وہ بار بار بھول رہا ہوتا ہے۔ میں نجانے کیوں آگے بڑھ کر خود تلاوت کرنے لگ جاتی ہوں حالانکہ ہمارے سکول میں ٹیچرز ایسا نہیں کرتیں۔اس کو میں پیچھے ہٹنے کا اشارہ کرتی ہوں اور خود اس کی جگہ کھڑی ہو کر سورہ الفیل پڑھنا شروع کر دیتی ہوں ۔ پڑھتے ہوئے مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ میں باقاعدہ قرات کے ساتھ تلاوت کرتی ہوں۔ بعد میں پرنسپل اور باقی اساتذہ بہت خوش ہوتے ہیں۔
تعبیر: ۔ اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کے فضل وکرم سے آپ کو بزرگی عطا ہو گی۔ علم و حکمت ملے گی۔ دینی و روحانی معاملات میں ترقی ہو گی ۔گھریلو و کاروباری معاملات میں دشمن پہ فتح نصیب ہو گی ۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور تلاوت قرآن پاک کو باقاعدگی سے جاری رکھیں۔ کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔
گھر میں آبشار
ملیحہ حسن، پتوکی
خواب :۔ میں نے خواب دیکھا کہ میں کسی اجنبی سے گھر میں ہوں اور اس گھر کے اندر ہی ایک آبشار سی بہ رہی ہے۔ مجھے نہیں پتہ کہ وہ گھر کس کا ہے یا اندرکون لوگ ہیں ، مگر یہ یاد ہے کہ میں حیران ہوتی ہوں کہ کیسے یہ گھر کسی نے بنایا ہے۔ میں آھستہ آھستہ آگے بڑھتے ہوئے آبشار کے پانی کے پاس چلی جاتی ہوں جو ایک نالی نما راستے سے گھر سے باہر جا رہا ہوتا ہے۔ میں اس پانی میں قدم رکھ دیتی ہوں جو کہ اتنا صاف ہوتا ہے کہ میں اپنے پیر بھی پانی میں دیکھ سکتی ہوں۔ پھر میں آگے بڑھ کر اس کو پینے کی کوشش کرتی ہوں اور پیتے ہوئے یہ سوچ کے کھڑی ہو جاتی ہوں کہ زمزم کو تو ہم بیٹھ کر نہیں پیتے اور کھڑے ہو کر وہ انتہائی لذیز اور میٹھا پانی پینے لگ جاتی ہوں۔
تعبیر : اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ھے کہ اللہ کی مہربانی سے آپ کے درجات میں ترقی ہو گی۔ علم و ہنر کی دولت آپ کو نصیب ہو گی جس سے دنیاوی طور پر بھی آپ کو فائدہ ہو گا۔ یعنی مال و وسائل میں بھی برکت ہو گی۔آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔ تلاوت قرآن پاک کو اپنا معمول بنا لیں۔
ڈبے میں مردہ خرگوش
نصرت فیروز، گوجرانوالہ
خواب : میں نے دیکھا کہ میں کسی شادی پر گاوں آیا ہوا ہوں۔ میرے بچوں کو یہ جگہ بہت پسند آتی ہے۔ ایک منظر میں مجھے لگتا ہے کہ جیسے یہ میری ہی شادی ہو رہی ہے اور بہت سارے لوگ میرے لئے تحفے لے کر آئے ہیں۔ جن میں میری جٹھانی بھی ہیں جو ایک بڑا سا ڈبہ لاتی ہیں اور مجھے دیتی ہیں کہ تمھارے بیٹے کے لیے ہے۔ میں خوشی خوشی کھول کر دیکھتی ہوں تو اس کے اندر کچھ خرگوش ہوتے ہیں جو کہ مر چکے ہوتے ہیں۔ میں ایک دم گھبرا کر اٹھ کھڑی ہوتی ہوں تو وہ میرے ہاتھ سے چھوٹ کے نیچے گر جاتا ہے۔ مگر میں مارے خوف کے اس جگہ سے بھاگ جاتی ہوں۔ اس کے بعد والا حصہ مجھے یاد ہی نہیں ہے ۔
تعبیر:۔ آپ کا خواب ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کسی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ خدانخواستہ کسی کی موت کی خبر بھی ہو سکتی ہے۔گھریلو اور کاروباری یا تعلیمی معاملات میں بھی پریشانی و رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یا شکور یا خفیظ کا ورد کیا کریں۔ حسب استطاعت صدقہ و خیرات بھی کریں۔ آپ کے لئے محفل مراقبہ میں دعا کرا دی جائے گی۔
گناہوں کی معافی مانگنا
اسلم خان، اسلام آباد
خواب :۔ میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے محلے کی مسجد میں نماز عصر ادا کرنے گیا ہوں۔ نماز کے بعد جب کافی نمازی چلے جاتے ہیں مسجد میں چند ہی لوگ ہوتے ہیں۔ میں خود کو گڑگڑا کر اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ھوئے دیکھتا ہوں۔ اور اس آہ و زاری میں مسجد میں موجود لوگ اٹھ کر میرے ارد گرد اکٹھے ہو جاتے ہیں تو میں گھبرا کر باہر نکل آتا ہوں۔ جب میری آنکھ کھلی تو میرا چہرہ آنسووں سے بھرا ہوا تھا اور میں استغفار کی تسبیح پڑھ رہا تھا۔
تعبیر :۔ اچھا خواب ہے جو کسی دلی مراد کے پورا ہونے کی طرف دلیل کرتا ہے۔ دینی معاملات میں بہتری کے ساتھ ساتھ دنیاوی معاملات میں بھی آسانی و بہتری ہو گی۔ رزق حلال میں اضافہ ہو گا اور اس کے لئے وسائل مہیا ہوں گے۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے ہر نماز کے بعد استغفار بھی کیا کریں۔
نظر کی خرابی
محمود علی، لاہور
خواب :۔ میں نے دیکھا کہ میں کہیں جا نے کے لئے تیار ہو رہا ہوں۔ میرے باتھ روم کا شیشہ کافی اندھا سا ہو رہا ہوتا ہے تو میں دوسرے کمرے میں چلا جاتا ہوں کہ ادھر تیار ہو جاتا ہوں۔ مگر اس کمرے میں موجود شیشہ بھی زنگ آلود سا ہوتا ہے اور بالکل بھی ٹھیک نظر نہیں آ رہا ہوتا ۔ پھر میں اسی طرح گھر سے نکل جاتا ہوں مگر میری گاڑی کے شیشے بھی اندھے سے لگتے ہیں ۔ مجھے بالکل بھی ٹھیک دکھائی نہیں دیتا ۔
تعبیر:۔ آپ کا خواب ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے گھریلو معاملات یا اولاد کی طرف سے آپ کو کچھ پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ازدواجی معاملات میں بھی بیوی یا شوہر کی طرف سے اسی طرح کے مسلے کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کاروباری معاملات میں بھی کسی پریشانی سے رکاوٹ ہو سکتی ہے۔ اس کا تعلق کاروباری افراد سے ہو سکتا ہے۔ جو آپ کے بھروسے کو توڑ سکتے ہیں ۔کوشش کریں کہ ان معاملات میں ضروری کاروائی لازمی کریں تا کہ کسی پریشانی سے بچا جا سکے۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔ لازمی طور پر صدقہ و خیرات بھی کریں۔
The post خوابوں کی تعبیر appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2NTjSXg
لاہور کے شاہی قلعہ سے ملنے والی توپوں کے متعلق جاننے کے لئے تحقیقات کا آغاز
لاہور: شاہی قلعہ میں بارودخانہ کی کھدائی کے دوران ملنے والی توپوں کی تاریخ بارے جاننے کے لئے والڈسٹی اتھارٹی کے ماہرین نے تحقیق شروع کردی ہے۔
ان دنوں لاہور کے شاہی قلعہ کے مُختلف حصوں میں بحالی کا کام جاری ہے، شاہی باورچی خانے، بارود خانے اورمثمم دروازے کی بحالی اورکھدائی کے دوران اب تک ڈیڑھ لاکھ کیوبک فٹ ملبہ اور کچرا اٹھایا جاچکا ہے۔
والدسٹی اتھارٹی حکام کے مطابق کھدائی کے دوران انہیں سکھ دور کی اشیا، زیر زمین راستے کا سُراغ ملا اورپھر 13 ستمبر کو توپوں کے آثار ملے، مثمم دروازے کی مرمت کے دوران دو توپیں برآمد ہوئیں جن کے بارے میں خیال ظاہرکیا جارہا ہے کہ یہ برطانوی دورمیں استعمال ہوتی رہی ہیں یہ توپیں مزید کُھدائی کرنے پر واضح ہو گئیں۔
زنگ آلود سیاہی مائل لوہے کی بھاری توپوں کے دریافت ہونے کے بعد والڈ سٹی اتھارٹی نے ان کی صفائی کا کام شروع کر دیا ہے۔ والدسٹی اتھارٹی کی ترجمان تانیہ قریشی نے بتایا کہ یہ توپیں بہترین حالت میں ہیں، اسی لئے انہیں بارود خانے، برطانوی دور کے پُل یا جیل کے باہر نصب کرنے پر غور کیا جا رہا ہے کیونکہ یہ ہمیں برطانوی دور حکومت کی یاد دلاتی ہیں لیکن اس سے پہلے ان کے وزن، حجم اور تاریخ جاننے کے لئے تحقیق کی جائے گی، اسی قسم کی دو توپیں دیوان عام اور ایک توپ موتی مسجد کے عقبی حصے کے باہر نصب ہے جو یہاں آنے والوں کی توجہ اپنی جانب مرکوز کرتی ہیں۔
توپوں پر واضح طور پر کھدے ہوئے نمبر اور تاج دیکھے جا سکتے ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا تعلق نو آبادیاتی دور سے ہے، مثمم دروازہ شاہ جہان کے دور میں تعمیر کیا گیا تھا، جبکہ بارود خانہ اور یہاں آنے والا شاہی راستہ انگریز دور میں اُس وقت بنایا گیا جب وہ شاہی قلعے پر قابض ہو گئے تھے۔ اس لئے تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات کہی جا سکتی ہےکہ انہی جگہوں کے قریب برطانوی فوج نے اپنے بیرک بنائے تھے اور یہاں سے اُن کی باقيات مل سکتی ہیں۔
The post لاہور کے شاہی قلعہ سے ملنے والی توپوں کے متعلق جاننے کے لئے تحقیقات کا آغاز appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2zFNQWa
قصہ افغان اور بنگالی باشندوں کی شہریت کا۔۔۔
وزیراعظم عمران خان نے افغان اور بنگالی باشندوں کو شہریت دینے کا عندیہ دے کر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ اِن کے پہلے دورۂ کراچی پر کہاں تو یہ توقع تھی کہ وہ کوئی ترقیاتی پیکیج دیں گے، اور کہاں انہوں نے اپنے تئیں مسائل کا یہ حل تجویز کر دیا کہ بعض مبصرین اسے الٹا مسائل میں اضافے سے تعبیر کر رہے ہیں۔
عمران خان کا خیال ہے کہ کراچی میں جرائم کی وجہ بنگلادیش اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے افراد ہیں، جو شناختی کارڈ نہ ملنے کی صورت میں بے روزگار رہتے ہیں اور پھر جرائم کی طرف راغب ہوتے ہیں۔
گزشتہ سال وفاقی وزارت داخلہ کی ایک رپورٹ میں تارکین وطن کا تخمینہ 50 لاکھ لگایا، جن میں ظاہر ہے سب سے بڑی تعداد افغان شہریوں کی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے اعدادوشمار کے مطابق 14 لاکھ رجسٹرڈ اور سات لاکھ غیر رجسٹرڈ افغان پناہ گزین ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق کراچی میں بنگالی افراد کی تعداد 15 لاکھ ہے، جب کہ بنگالی باشندوں کے نمائندے خواجہ سلمان اپنی برادری کی تعداد 25 لاکھ تک بتاتے ہیں۔
یہ درست ہے کہ بہت سے قومی اور بین الاقوامی قوانین کی رو سے جائے پیدائش کی بنیاد پر کسی بھی فرد کو ریاست کی شہریت کا حق حاصل ہوجاتا ہے، لیکن نئے شہریوں کے اس حق کی بنیاد دیگر مقامی شہریوں کے بنیادی حق تلفی پر ہرگز نہیں رکھی جانی چاہیے۔ عمران خان کے اس اعلان پر سابق وزیراعلیٰ بلوچستان سردار اختر مینگل نے بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا، جس پر یہ وضاحت سامنے آئی کہ کہ صرف کراچی میں موجود افغانوں اور بنگالیوں کو شہریت دینے کی بات کی گئی تھی۔
کراچی اور سندھ لسانی اعتبار سے پہلے ہی بہت سے مسائل کا شکار رہے ہیں۔ اس لیے کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت مقامی آبادی کے تحفظات کو نظرانداز کرنا بے حد خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ تارکین وطن کے حوالے سے حکم رانوں سے پہلا سوال تو یہ ہونا چاہیے کہ انہیں اب تک واپس اپنے ملک کیوں نہیں بھیجا گیا۔ بالخصوص کراچی جیسے مصائب زدہ شہر کب تک بن بلائے مہمانوں کی تواضع کر کر کے ہلکان ہوتا رہے گا۔ اگر ان تارکین وطن کا ریکارڈ نہ ہونے کی وجہ سے مسائل ہیںِ، تو حکومت کا فرض ہے کہ بطور غیر ملکی ان کی رجسٹریشن یقینی بنائے۔ اس کے بعد باضابطہ طریقے سے انہیں روانہ کیا جائے۔
بدترین گنجانیت کے شکار کراچی میں بنیادی سہولیات سے لے کر ہنگامی امداد تک شدید مسائل درپیش ہیں۔ اس گنجانیت کی سب سے بڑی وجہ ملک کے دیگر علاقوں میں روزگار کے مناسب مواقع نہ ہونا ہے، جس کے سبب ملک کے کونے کونے سے یہاں مسلسل نقل مکانی جاری ہے۔ سرکاری سطح پر بھی یہ سلسلہ رہا، جب 1960ء کی دہائی میں یہاں تربیلا ڈیم کے متاثرین کو لاکر بسایا گیا۔۔۔ 1980ء کی بدنصیب دہائی میں یہاں افغان مہاجرین کا سیلاب بھی داخل کردیا گیا، جس سے شہر کے مسائل میں کئی گنا اضافہ ہوا۔ اِن افغان پناہ گزینوں نے اِس شہر کو منشیات اور اسلحے و بارود کا وہ ’’تحفہ‘‘ دیا کہ جس کے ثمرات کا احاطہ ان صفحات پر ممکن نہیں۔ اس کے بعد 2005ء کے زلزلے اور 2010ء کے سیلاب اور دیگر قدرتی آفات کے شکار افراد کی بھی یہاں آمد ہوئی۔ سوات اور قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کے متاثرین کو بھی ہزاروں کلو میٹر دور یہاں لاکر بسایا گیا۔
یہ وہ صورت حال ہے کہ اب اہل کراچی یہ شکوہ کرتے ہیں کہ انہیں اپنے گھر میں اجنبی بنایا جا رہا ہے۔ یہ درست ہے کہ ان کے آباو اجداد نے ہجرت کی، لیکن اب اُن کا جینا مرنا اسی شہر کے ساتھ ہے، جب کہ یہاں آنے والی دیگر لسانی اکائیوں کے اپنے آبائی علاقے بھی موجود ہیں، اس لیے اس شہر اور اِس کے وسائل پر پہلا حق ہمارا تسلیم کیا جانا چاہیے، ہم یہاں سے کما کر یہیں خرچ کرتے ہیں، جب کہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ دیگر افراد یہاں کے وسائل سے استفادہ کر کے اپنی زیادہ تر آمدنی اپنے علاقوں میں صرف کرتے ہیں۔
جب کوئی سہولت پہلے گھر کے افراد کے بہ جائے باہر والوں کو ملے، تو ایسے سماج میں ہم آہنگی کے بہ جائے شدید تناؤ جنم لیتا ہے، اور ہماری تاریخ میں اس کے خوف ناک نتائج بھی رقم ہیں۔ آج بھی کراچی میں مسافر بسوںِ، سڑکوں، بازاروں اور گلی محلوں میں معمولی تنازع لسانی تکرار اختیار کر جاتے ہیں۔۔۔ اس کی بنیادی وجہ ہی یہ ہے کہ اس شہر کے وسائل نہایت کم اور مسائل بہت زیادہ ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسے میں آپ لاکھ جتن کرلیں نہ سماجی ہم آہنگی پیدا ہو سکتی ہے اور نہ لسانی سیاست کا سدباب کیا جا سکتا ہے۔
اگر تارکین وطن کو شہریت دے دی گئی تو پھر لامحالہ یہ انتخابات میں اپنا حق رائے دہی بھی استعمال کریں گے۔ یہ امر جہاں بہت سی سیاسی جماعتوں کے موافق ہوگا اور وہیں بہت سی سیاسی جماعتوں کے لیے غیرموافق بھی ثابت ہوگا۔ ایسی صورت حال میں کراچی میں خدانخواستہ دوبارہ نفرتوں کا الاؤ دہکنے کے خدشات نظرانداز نہیں کیے جاسکتے۔ اس شہر نے پہلے ہی 1965ء سے اب تک لسانی عصبیتوں کو بہت جھیلا ہے، درمیان میں لسانیت کا محاذ ذرا ٹھنڈا ہوتے ہی 12 مئی 2007ء کے سیاسی تصادم کو بنیاد بنا کر شہر میں دوبارہ لسانی نفرتیں پھیلائی گئیں، آج تک نہیں پتا چلا کہ آخر ایک سیاسی اختلاف کو اس شہر میں لسانی رنگ کس طرح دے دیا گیا؟
25جولائی 2018ء کے عام انتخابات میں پہلی بار تحریک انصاف نے کراچی میں بھی اکثریت حاصل کی ہے۔۔۔ انتخابات سے قبل جب مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے جب کراچی کے دورے کے دوران یہ کہا کہ ’’میں پان کھانے والوں کے کراچی کو لاہور بناؤں گا!‘‘ تو پہلی بار ایسا ہوا کہ تحریک انصاف کراچی کے راہ نماؤں نے بھی انہیں آڑے ہاتھوں لیا اور کراچی کے دفاع کے لیے میدان میں آئے۔ انہوں نے اس دوران ’بانیان پاکستان‘ جیسی اصطلاحیں بھی استعمال کیں، جو اس سے پہلے صرف ایم کیو ایم کی جانب سے ہی استعمال کی جاتی تھیں۔ آج تحریک انصاف ملک بھر کی طرح کراچی کی بھی ایک اکثریتی جماعت ہے۔ اس لیے کراچی کے نمائندوں کی حیثیت سے اِن کی بنیادی ذمے داری ہے کہ وہ اس شہر کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ یہاں کی سماجیات کی نبض پر ہاتھ رکھ کر کریں۔ کسی تجزیے، خدشے یا شکایت کو آنکھ بند کرکے فقط تعصب یا تنگ نظری کے چابک سے نہ ہانک دیں، بلکہ اس پر سنجیدگی سے غور کریں، کیوں کہ یہ شہر اب مزید کسی سماجی اور سیاسی اشتعال انگیزی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
٭کیا بنگالی باشندوں کا موازنہ افغان مہاجرین سے کیا جا سکتا ہے؟
عمران خان نے بنگالی اور افغان افراد کو شہریت دینے کے اعلان سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان میں دونوں قوموں کا مقدمہ یک ساں نوعیت کا ہے، یا اس میں کوئی فرق ہے۔ وزیراعظم کے اعلان کے بعد ہمارے بیش تر تجزیہ کار دو الگ الگ مسئلوں کو خلط ملط کر رہے ہیں، جس سے کافی ابہام پیدا ہو رہا ہے۔
جغرافیائی طور پر دیکھیے تو ریاستِ پاکستان برصغیر کے ایک مخصوص حصے میں قائم ہوئی، لیکن یہ ریاست پورے برصغیر کے مسلمانوں کی جدوجہد اور کوششوں کا نتیجہ تھی۔ اگرچہ 1971ء میں مشرقی بنگال، بنگلا دیش بن گیا، لیکن نظریاتی طور پر پاکستان میں بنگالیوں کے رہنے کی نفی نہیں کی جا سکتی، ہمیں یہ بھی دھیان میں رکھنا چاہیے کہ بنگال کا مغربی ٹکڑا بنگلا دیش کا حصہ نہیں، جس طرح برصغیر کے دیگر علاقے نے اس ریاست میں رہنے کے حق کو استعمال کیا، اسی طرح مغربی بنگال کی نسبت سے بھی اِن کے لیے گنجائش نکلتی ہے۔
یہی نہیں مسلم لیگ کے قیام (1906ء) سے قیام پاکستان (1947ء) تک اہل بنگال کی جدوجہد سے کسی طرح انکار نہیں کیا جا سکتا، بنگال کا شمار برصغیر کے اُن تین صوبوں میں ہوتا ہے، جنہوں نے قیام پاکستان کے لیے (کل 30میں سے) سب سے زیادہ یعنی چھے، چھے نشستیں دے کر پاکستان کے حق میں ووٹ دیا۔ ان صوبوں میں ’یوپی‘ تو کبھی اس ملک کا حصہ ہی نہ بن سکا، جب کہ پنجاب کی مسلم لیگ میں شمولیت بٹوارے سے کچھ ہی پہلے کا واقعہ ہے، دوسری طرف صوبہ بنگال کی تحریک پاکستان میں شمولیت بالکل آغاز سے ہے۔
افغان پناہ گزینوں کا مسئلہ 1980ء میں روسی حملے کے بعد پیدا ہوا، اِن افغان باشندوں کی یہاں آمد عارضی بنیادوں پر تھی، لیکن عملاً یہ کراچی کے وسائل پر دھڑلے سے قابض ہوتے گئے، جس کی وجہ سے شہر میں امن وامان کے گمبھیر مسائل پیدا ہوئے، انہیں واپس بھیجنے کے خاطرخواہ اقدام تو کیا ہوتے، الٹا ان کے یہاں قیام کی مدت میں بار بار توسیع کی جاتی رہی۔
یہ بات بھی ملحوظ خاطر رکھنے کی ضرورت ہے کہ افغانستان کی 45 فی صد سے زائد آبادی تاجک، ازبک اور دیگر وسطی ایشیائی نسلوں پر مشتمل ہے، یوں بلاواسطہ وسطی ایشیا کے باشندے بھی یہاں کی شہریت حاصل کرنے کے راستے اختیار کرنے لگیں گے، اس امر پر بھی بہت اچھی طرح غور کرنے کی ضرورت ہے۔پاکستان سے بنگلادیش کی کوئی سرحد نہیں ملتی، اس لیے جغرافیائی طور پر بنگالی باشندوں کی یہاں مزید نقل مکانی ممکن نہیں۔ یوں بنگالیوں کے حوالے سے تو شہریت کے مسئلے کو ہم حل ہونا کہہ سکتے ہیں، افغان باشندوں پر انہیں جغرافیائی اور تاریخی طور پر بھی برتری حاصل ہے، جب کہ نسلی طور پر ریاست میں افغانیوں کے مماثل لسانی اکائیاں اور موافق سیاسی آوازیں موجود ہیں، پھر فطری طور پر اپنا ناتا وہاں سے جوڑ لیں گے، جب کہ بنگالیوں کی یہاں کراچی ہی آخری پناہ گاہ ہے۔ یہ امر سماجی ہی نہیں سیاسی طور پر کراچی پر گہرے اثرات مرتب کرے گا۔
ریاست پہلے ہی تین عشروں سے افغان باشندوں کی تباہ کن مہمان نوازی اٹھا رہی ہے، ہماری افغانستان کے ساتھ ایک طویل سرحد بھی موجود ہے، جہاں سے آمدورفت کا سلسلہ بھی مستقل جاری رہتا ہے۔ کراچی میں ان کے لیے شہریت کے دروازے کھلنے کے بعد یہ سلسلہ مزید دراز ہونے کے خدشات ہیں، پھر کیا ہمارے کم زور نظام میں کسی بھی طرح یہاں کی پیدائش ثابت کرنا کون سا دشوار امر رہ جاتا ہے۔ اس سے ہمارے ناکافی وسائل پر مزید بار بڑھ جائے گا۔
٭غیرملکیوں کی شہریت اور اپنے شہریوں کی بے گھری!
اِن دنوں کراچی میں مختلف سرکاری اداروں کی جانب سے کئی عشروں پرانی آبادیاں خالی کرانے کے لیے کارروائیاں جاری ہیں۔ مارٹن کوارٹر اور گارڈن وغیرہ میں بہت سے کوارٹرز میں سابق سرکاری ملازمین کے اہل خانہ 40، 40 برسوں سے رہ رہے ہیں اور انہوں نے ماضی میں اپنے تئیں مالکانہ حقوق کی کارروائی بھی نمٹائی ہے، اس کے باوجود چار ہزار سے زائد کواٹروں میں رہنے والے لاکھوں مکینوں پر بے دخلی کی تلوار لٹکی ہوئی ہے۔
ستم بالائے ستم یہ کہ کراچی کے حقوق کی سب سے بڑی نام لیوا ’متحدہ قومی موومنٹ‘ سے لے کر حب الوطنی اور مذہبی بنیادوں پر استوار کوئی بھی سیاسی جماعت اس سنگین انسانی مسئلے پر آواز اٹھانے کے لیے تیار نہیں۔۔۔! ایسے ماحول میں اسی کراچی میں غیرقانونی طور پر مقیم افراد کو قانونی تسلیم کرنا اِن افراد کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے، جو ریاست کے قیام کے وقت سے یہاں کے شہری ہیں۔ کتنی عجیب سی بات ہے کہ کراچی میں جن تارکین وطن کی باقاعدہ پوری آبادیاں غیرقانونی ہیں، بلکہ بہت سی ہاؤسنگ سوسائٹیز کی زمینوں پر بھی وہ قبضہ جمائے ہیں اور ان کے اصل مالکان بے بس ہیں۔ کسی کی مجال نہیں ہے کہ ان کے قبضے چھڑائے۔ الٹا نہیں یہاں کی شہریت دینے کی باتیں کی جا رہی ہے، جب کہ دو، دو کمرے کے گھروں میں گزر بسر کرنے والے ان سرکاری خادمین کے اہل خانہ کے سر سے چھت بھی چھینی جا رہی ہے، جن کے بڑوں کی محنت سے اُس زمانے میں امور ریاست چل پائے۔
٭شہریت دینے سے پہلے
پاکستان جیسے کثیر الا قومی ملک میں پناہ گزینوں کو شہریت دینے کے کسی بھی فیصلے سے قبل مقامی آبادی کے تحفظات دور کیے جانا ضروری ہیں، تاکہ انہیں اپنے سماجی اور سیاسی حق کی تلفی کا کوئی خدشہ نہ ہو، انہیں کسی بھی طرح اقلیت میں تبدیل نہ کیا جائے، نئے شہریوں کی رہائش اور زندگی گزارنے کے لیے براہ راست متعلقہ ضلع کے بجٹ میں اضافہ کیا جائے، نہ کہ اُسی وسائل میں نئے شہریوں کو بھی حصے دار بنا دیا جائے۔ نئے وسائل میں پانی، بجلی اور گیس سے اسپتالوں تک کی ہنگامی ضروریات کا احاطہ ہونا چاہیے.
شہریت دینے کے بعد انہیں بہ جائے کسی مخصوص جگہ بسانے کے، انہیں ملک کے مختلف علاقوں میں آباد کرنے کے لیے بھی سہولیات مہیا کی جا سکتی ہیں، غیر ملکی باشندوں کو مکمل شہری حقوق بہ تدریج اور مشروط طور پر دیے جائیں، جس میں باقاعدہ طور پر حق رائے دہی اور دیگر بنیادی حقوق حاصل ہونے کی ایک مدت کا تعین کیا جائے، وغیرہ۔ اگر ان بنیادی امور کو سامنے رکھ کر کوئی بھی فیصلہ کیا جائے تو یقیناً یہ قدم کسی بھی معاشرے کی سیاسی اور سماجی ہم آہنگی کی طرف بڑھا ہوا محسوس ہوگا، ورنہ صورت حال اس کے برعکس ہوگی۔
The post قصہ افغان اور بنگالی باشندوں کی شہریت کا۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Qoiwkr
بُک شیلف
محمد حسین آزاد، احوال و آثار
مصنف: ڈاکٹر محمد صادق
صفحات:269
قیمت: 300 روپے
ناشر: مجلس ترقی ادب، لاہور
اردو ادب کی ترویج اور ترقی میں بہت سی شخصیات نے مختلف ادوار میں اپنے اپنے انداز میں کردار ادا کیا، کچھ نے نثر کو میدان کے طور پر چنا اور کچھ نے شاعری پر توجہ دی، اسی طرح علوم شرقیہ کی بھی ترویج ہوئی۔
مولانا محمد حسین آزاد کا زمانہ یعنی انیسویں صدی بڑی ہی پرآشوب تھی کیونکہ اس دور میں مغل سلطنت کا زوال ہو چکا تھا اور انگریزوں نے پورے برصغیر پر اپنے پنجے پوری طرح گاڑھ لیے تھے۔ مسلمان یوں تو پہلے ہی معتوب تھے کیونکہ انگریزوں نے اقتدار انھی سے چھینا تھا مگر 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد بالخصوص مسلمانوں پر دور ابتلا کا آغاز ہوا ۔ مولانا آزاد کے والد مولوی محمد باقر ایک اردو اخبار کے مالک تھے اور ابتدا سے ہی ہر طرح سے مسلمانوں کی حمایت کرتے تھے یوں وہ انگریزوں کی نظر میں کھٹکتے تھے۔
جنگ آزادی کے بعد انھیں مختلف الزامات کے تحت گرفتار کر کے قید کر لیا گیا اور پھانسی دیدی گئی۔ مولانا آزاد اس دور میں اپنے اخبار میں بطور مدیر منسلک تھے، یوں وہ بھی معتوب ٹھہرے، مگر شومئی قسمت وہ بچ نکلے اور کافی عرصہ تک جان بچانے کے چکر میں سرگرداں رہے، یوں ان کی زندگی بڑی مشکلات سے دوچار رہی، مگر کیا کہتے ہیں حالات کی چکی میں پسنے کے بعد جوہر کھل کر سامنے آتے ہیں تو مولانا آزاد نے بھی ہمت نہ ہاری اور بالآخر انھوں نے اپنی قابلیت کا لوہا منوا لیا ۔
زیر تبصرہ کتاب ان کی پوری زندگی کا احاطہ کرتی ہے، اس کے ساتھ ساتھ ان کی تصانیف اور رجحانات کا بھی بڑے معروضی انداز میں تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے اور تحقیق کے تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ آخر میں ضمیمہ جات بھی دیئے گئے ہیں، گیارہ ابواب پر مشتمل اس کتاب کا قارئین کو ضرور مطالعہ کرنا چاہیے، تاکہ وہ ایک عظیم ادیب کی زندگی میں آنے والے اتار چڑھاؤ سے واقفیت حاصل کر سکیں۔
بحر الفصاحت (حصہ ششم و ہفتم) علم بدیع
مصنف: مولوی نجم الغنی رام پوری
مرتب: سید قدرت نقوی
قیمت:500 روپے
صفحات:488
ناشر: مجلس ترقی ادب، لاہور
زبان کے قرینے اور سلیقے زانوئے تلمذ طے کرنے سے ہی آتے ہیں، سیکھنے کے یہ آداب ذوق و شوق سے ہی تعلق رکھتے ہیں ورنہ چل چلاؤ تو بہتوں کو آتا ہے۔ مجلس ترقی ادب نے بحر الفصاحت کے نام سے زبان کے قرینے سے ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کو آگاہ کرنے کی شاندار کاوش کی ہے، زیر تبصرہ کتاب میں علم بدیع میں صنائع لفظی و معنوی سے بحث کی گئی ہے۔ سیوطی نے کہا ہے کہ بدیع کلام کی خوبی بعد رعایت مقتضائے حال اور وضوح الدلالۃ یعنی تعقید سے خالی ہونے کی معلوم ہوتی ہے۔
منفعت اس کی یہ ہے کہ کلام میں ایسی خوبی پیدا ہو جائے کہ کانوں کو بھلا معلوم ہو اور دل میں اتر جائے۔ ’’خیر البلاغت ‘‘ کے ایک رسالے میں لکھا ہے کہ علم بدیع وہ ہے جس سے کلام بلیغ کی عارضی خوبیوں کا حال معلوم ہو جاتا ہے۔ عبداللہ بن معتز عباسی نے علم بدیع کے قواعد بنائے اور اسے الگ علم کا درجہ دیا اور اپنی کتاب میں سترہ قسم کی صنائع لکھیں، پھر پیچھے آنے والے اس میں اضافہ کرتے چلے گئے۔ ایک علمی بحث یہ بھی ہے کہ علم معانی اور بیان سے کلام میں حسن ذاتی آ جاتا ہے، پھر علم بدیع کو الگ علم کا درجہ کیوں دیا گیا؟۔
اسی لئے محاسن کو دیکھتے ہوئے کچھ محققین نے بدیع کو علم معانی اور بیان کا ہی حصہ قرار دیا۔ ایسی علمی مباحث ادب کی وسعت اور بڑائی میں اضافے کا سبب ہیں۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے، ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کو اس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔
درد جاں ستاں
مصنف: سید ناصر نذیر فراق دہلوی
مرتبہ: محمد سلیم الرحمٰن
قیمت:150 روپے
صفحات؛133
ناشر: مجلس ترقی ادب، لاہور
ناصر نذیر فراق اپنے زمانے کے نامور نثر نگار رہے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ آج کی نسل ان کے بارے میں کم ہی جانتی ہے، جس کی وجہ ان کی تصانیف کا منظر عام پر نہ آنا ہے،انھوں نے افسانے، مضامین، لوک روایات، معاشرتی خاکے اور ناول لکھے، مجلس ترقی ادب نے ان کے اس ناول کو مرتب کروا کر ادب کی شاندار خدمت کی ہے ۔
یہ ناول پہلی مرتبہ 1909ء میں شائع ہوا تھا۔ ناول کی فضا اور زبان و بیان بھی اسی دور کے مطابق ہے، اندازہ ہے کہ یہ فراق کا پہلا ناول ہے۔ نامور ادیب محمد سلیم الرحمٰن کا کہنا ہے کہ ناول کو سچا واقعہ قرار دے کر فراق نے پڑھنے والوں کو بڑے دبدھے سے دوچار کر دیا ہے ۔ تاہم اگر ناول نگار کے اس دعوے پر یقین کر لیا جائے کہ وہ سچے واقعات بیان کر رہا ہے تو طرح طرح کے سوال سر اٹھاتے ہیں اور ان کا کوئی تسلی بخش جواب ناول کے متن میں تلاش کرنا بے سود ہے۔ محترم سلیم الرحمٰن نے پیش لفظ میں اسی طرح ناول کا کڑا تنقیدی جائزہ لیا ہے اور بہت سی ادبی مباحث کا راستہ کھول دیا ہے، بہرحال گم گشتہ ادب کی بازیابی مجلس ترقی ادب کی بہترین کاوش ہے۔
میں ہوں عمران خان
مصنف: فضل حسین اعوان
قیمت: 750روپے
صفحات: 256
ناشر: دعا پبلی کیشنز، اردو بازار، لاہور
عمران خان سپر سٹار کرکٹر ہیرو جنھوں نے 1992ء میں پاکستان کو کرکٹ کا عالمی کپ جتوایا، جو اب اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ہو چکے ہیں، کی زندگی مسلسل جدوجہد کی شاندار مثال ہے۔ انھوں نے کھیل کی دنیا میں قدم رکھا تو اس کی آخری بلندی تک پہنچے اور سیاست کے خارزار میں پاؤں دھرے تو اس کی بھی سب سے اونچی سیٹ پر براجمان ہوئے۔
مصنف نے کتاب میں عمران خان کی زندگی کی بھرپور تصویر پیش کی ہے، بچپن سے لے کر کرکٹ کے میدان میں قدم رکھنے تک عمران کو تعلیمی میدان میں جو چیلنجز درپیش ہوئے اور عمران نے ان پر کیسے قابو پایا؟ کرکٹ میں کامیابی کے لئے انھیں کتنی محنت کرنا پڑی اور کیسے ناکامیوں کو کامیابی میں بدلا؟ اس دوران ان کی زندگی میں جو گلیمر در آیا اس کی وجہ سے انھیں کن سکینڈلز کا سامنا کرنا پڑا اور وہ کیسے ان سے عہدہ برآ ہوئے؟
عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کیسے متحرک ہوئے؟ پھر آخر میں سیاست کے میدان میں پیش آنے والی مشکلات اور مخالفین کا پروپیگنڈا، ان سب کا سوالوں کا جواب دیا گیا ہے۔ عمران کے والد اکرام اللہ نیازی کی ایک تحریر بھی کتاب میں شامل ہے جو ایک باپ کے اپنے بیٹے کے بارے میں محسوسات کا اظہار تو ہے ہی اس کے ساتھ ساتھ بجپن سے جوانی کی زندگی کی بھی عکاسی کرتی ہے۔ کتاب کا مطالعہ کرنے سے ایک شاندار شخصیت کا تصور ابھرتا ہے جو ایک سچا اور کھرا انسان ہے اور ہمہ وقت جہد مسلسل کا پیکر ہے اور یہ سبق بھی ملتا ہے کہ اگر لگن سچی ہو تو بالآخر منزل مل ہی جاتی ہے۔
میرا پاکستان
مصنف: مولانا محمد الیاس گھمن
صفحات: 127
قیمت : درج نہیں
ناشر :عالمی اتحاد اہل السنۃ والجماعۃ
مولانا محمد الیاس گھمن معروف عالم دین ہیں اور میرا پاکستان ان کی تازہ تصنیف ہے جس میں انہوں نے وطن عزیز پاکستان کی تخلیق کے مقاصد، اس کے قیام کی غرض وغائت، اس کی تاریخ اور اس حوالے سے علما کا کردار کیا تھا، اس بارے میں اس چھوٹی سی کتاب میں بڑے موثر انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے۔
اس کتاب کے مخاطب تو بظاہر مدارس کے طلبہ ہی ہیں لیکن یہ کتاب ہر پاکستانی خصوصاً ہماری نوجوان نسل، جس نے پاکستان کو اپنی آنکھوں سے بنتے نہیں دیکھا ان کے لیے یہ ایک ایسی کتاب ہے جسے ضرور پڑھا جانا چاہیے تاکہ اسے یہ معلوم ہو سکے کہ یہ عظیم مملکت خداداد حاصل کرنے کے لیے ہندوستان کے مسلمانوں کو کس قدر قربانیاں دینا پڑیں اور مشکلات و مصائب جھیلنا پڑے، آگ و خون کے دریا سے کس طرح گزرنا پڑا۔ لیکن جن عظیم مقاصد کے لیے یہ ملک حاصل کیا گیا تھا وہ آج تک پورے نہیں ہو سکے۔ یہ لمحہء فکریہ ہے کہ قیام پاکستان کی منزل پانے کے بعد اپنی خواہشات، آرزووں اور آدرشوں کی روشنی میں آج ہم کہاں کھڑے ہیں۔اس کتاب میں اس تمام صورت حال کا احاطہ کیا گیا ہے۔ نوجوان نسل کے لیے اس کتاب کا مطالعہ ضروری ہے ۔
شریف کنجاہی کے خطوط
مرتب : احسان فیصل کنجاہی
صفحات: 160
قیمت : 250/ روپے
ناشر: کامرانیاں پبلی کیشنز، کنجاہ، گجرات
شریف کنجاہی پنجابی زبان کے معروف ادیب، شاعر، مترجم، محقق اور استاد تھے۔ انہوں نے تمام عمر پنجابی زبان و ادب کی خدمت میں گزاری۔ دیگر علمی وا دبی کتب کے علاوہ قرآن مجید کا پنجابی میں ترجمہ بھی ان کا ایسا کارنامہ ہے جو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔ زیر تبصرہ کتاب شریف کنجاہی کے ان ایک سو سے زائد خطوط کا مجموعہ ہے جو انہوں نے مختلف لوگوں کو لکھے۔ خطوط نویسی الگ سے ایک صنف ِ ادب کا درجہ رکھتی ہے۔ مشاہیر کے خطوط اسی اعتبار سے خصوصی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں کہ جن سے نہ صرف متعلقہ شخصیت کو سمجھنے، اور اس کے فکر و فلسفہ، اس کی سوچ اور نظریہ حیات و فن تک رسائی ممکن ہو جاتی ہے بلکہ۔ یہ خطوط اس عہد کی ادبی اور ثقافتی تاریخ بھی اپنے اندر رکھتے ہیں۔
احسان فیصل کنجاہی نے شریف کنجاہی کے خطوط کو منضبط کرکے کتاب کی شکل میں پیش کردیا ہے۔ تاہم پروف کی غلطیاں بعض مقامات پر مزہ کرکرا کردیتی ہیں ۔کتاب کی اشاعت بلا شبہ ایک بڑا کام ہے اور اس نوعیت کے بڑے کام کے لیے عرق ریزی اور محنت بھی اسی قدر درکار ہوتی ہے۔ اور پروف ریڈنگ کی غلطیاں بڑی کتاب کو بھی قاری کی نظر میں بے وقعت کر دیتی ہیں ۔ اس کے باوجود یہ ایک ایسی کاوش ہے جسے بہرحال سراہا جانا چاہیے۔
تکلم
شاعرہ: تبسم شیروانی
صفحات: 128
قیمت : 260 روپے
ناشر: سانجھ پبلی کیشنز، مزنگ روڈ، لاہور
زیر تبصرہ کتاب تبسم شیروانی کی شاعری کا اولین مجموعہ ہے جو سترکے قریب آزاد نظموں پر مشمل ہے۔ ان نظموں میں نسوانی حسن، خیالات اور جذبات کی خوشبو رچی ہوئی ہے ۔ شاعرہ کا کہنا ہے کہ میرے لیے شاعری کتھارسس بھی ہے اور تلاش ِ ذات کا سفر بھی۔ان نظموں کے مطالعے سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ شاعرہ تلاش ِ ذات کے سفر پر ہے۔ ذاتی مشاہدات و تجربات نے ان کی شاعری کو وقیع بنا دیا ہے۔ ڈاکٹر امجد طفیل کے بقول ’’ ان نظمو ںکے مطالعے سے قاری کو پہلا تاثر تو یہ ملتا ہے کہ ان کا طرز احساس عہد جدید سے لگا کھاتا ہے۔
ان کے ہاں قید اور آزادی کی متضاد کیفیات کے درمیان کشمکش دکھائی دیتی ہے، وہ اپنے ظاہر و باطن میں موجود بُعد کو اپنے تخلیقی تجربے میں حل کرنے کی کوشش کرتی ہیں ‘‘َ۔ اور یہی کتھارسس ہے ۔ پروین سجل کا کہنا ہے کہ ’’ تکلم کی شاعری فکر انگیز ہے جس سے شاعرہ کی سوچ اپنی راہ متعین کرتی دکھائی دیتی ہے ‘‘۔ خوبصورت سرورق کے ساتھ یہ مجموعہ دلکش بھی ہے اور دیدہ زیب بھی۔
رت جگوں کا سفر
شاعر : شبیر ناقد
صفحات: 144
قیمت: 500/ روپے
ناشر : اردو سخن ڈاٹ کام، پاکستان
غزلوں، نظموں اور قطعات پر مشتمل یہ مجموعہ شاعر اور ادیب شبیر ناقد کا نتیجہ ء فکر ہے ۔ وہ اس سے پہلے درجن بھر شعری کتب شائع کرچکے ہیں ۔ا س کتاب میں چھوٹی بحراور سادہ پیراہن میں غزلیں روائتی مضامین کے ساتھ موجود ہیں ۔ شبیر ناقد کا اسلوب سادہ اور عام فہم ہے ان کی شاعری میں عشق و محبت کے روائتی مضامین بہ کثرت ملتے ہیں، تاہم خیالات میں وہ گہرائی اور گیرائی نظر نہیں آئی جس کی توقع شاعری کے کسی نئے مجموعے سے رکھی جاسکتی ہے۔
تاہم کتاب کے ناشر کا ماننا ہے کہ ’’ شبیر ناقد عہدِ موجود کے کہنہ مشق، ممتاز اور اپنے ہنر میں مخلص شاعر ہیں جو ریاضت کے مسلسل عمل سے نت نئے اظہاری پیرائے اور قلبی وارداتوں کے سراغ تلاش کرتے رہتے ہیں، سادہ مگر جاندار لفاظی ان کا وطیرہ ہے جبکہ خوبصورت رومانوی فضا کی تعمیر میں بھی انہیں ملکہ حاصل ہے ‘‘۔کتاب کے آخری صفحات پرآزاد نظموں کے علاوہ بچوں کے لیے دو نظمیں بھی شامل کی گئی ہیں جن میں سے ایک ان کے اکلوتے بیٹے ’’کاوش بیٹا ‘‘ اور دوسری ’’ الائیڈ بنک تونسہ شریف‘‘ کے عنوان سے ہے۔
The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2zFNRtc
’معاشی حملہ‘ جدید دور کا انوکھا طرز ِجنگ
امریکا کے رئیل اسٹیٹ ڈویلپر ،ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں امریکی عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنی مملکت کو ’’دوبارہ عظیم‘‘ بنائیں گے۔ مطلب یہ کہ وہ برسراقتدار آکر امریکا کو معاشی مسائل سے چھٹکارا دلاسکتے ہیں۔ اس وعدے پر امریکی عوام نے اعتبار کیا اور ٹرمپ کو وائٹ ہاؤس تک پہنچا دیا۔
صدر ٹرمپ نے مگر اپنی ٹیم کے ساتھ امریکا کو معاشی مسائل کی دلدل سے نکالنے کے لیے انوکھا راستہ اپنالیا… وہ مختلف ممالک پر معاشی حملے کرنے لگے۔
انہوں نے گویا انہونی دکھاتے ہوئے معاشی حملے کو جدید دور کا خطرناک طرزِ جنگ بناڈالا۔یہ طرزِ جنگ آشکارا کرتا ہے کہ اب کسی ملک کے خلاف محض ٹینکوں، توپوں اور طیاروں سے حملہ نہیں کیا جاتا بلکہ اسے کمزور کرنے اور اپنا مطیع بنانے کے لیے اس پر معاشی حملے کرنے بھی ممکن ہیں جو شاید زیادہ کارگر ثابت ہوتے ہیں۔وہ اس لحاظ سے کہ انسانی خون بہائے اور تباہی پھیلائے بغیر حملہ کرنے والا ملک اپنا مقصد حاصل کر سکتا ہے۔
دلچسپ بات یہ کہ دنیا بھر میں نت نئی جنگیں چھیڑ کر ہی امریکی حکمران طبقے نے اپنے ملک کو معاشی مسائل میں گرفتار کروایا اور امریکا کھربوں ڈالر کا مقروض ہوگیا۔ تاہم ٹرمپ حکومت نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور معاشی حملوں کی داغ بیل ڈال دی۔اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ٹرمپ کی ٹیم کے اہم ارکان امریکی فوج کے سابق فوجی افسر ہیں۔ممکن ہے کہ ان کی چھیڑی معاشی جنگوں سے امریکا کو وقتی طور پہ فائدہ پہنچ جائے، لیکن طویل المعیادی لحاظ سے اسے نقصان بھی پہنچ سکتا ہے۔
امریکا کو کئی ممالک سے باہمی تجارت میں خسارہ ہورہا تھا۔ اس ضمن میں چین اور امریکا کی باہمی تجارت میں خسارہ سب سے زیادہ تھا۔ یہ خسارہ کم کرنے کے لیے ٹرمپ حکومت نے چینی سامان پر عائد ٹیکسوں کی شرح بڑھادی۔ یوں اس نے ایک تیر سے دو شکار کر دئیے۔ ایک تو امریکی حکومت کی آمدن بڑھ گئی، دوسرے ٹیکس بڑھنے سے چینی سامان کی آمد میں بھی کمی آجاتی۔چین نے ٹرمپ حکومت کے اس معاشی حملے کو صبر و سکون سے برداشت نہیں کیا۔ چینی حکومت نے بھی امریکی سامان پر لگے ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کردیا۔ اس جوابی وار نے دونوں ممالک کے مابین جاری معاشی جنگ کی شدت بڑھادی۔ تاہم فریقین سنبھل کر اور بڑی حکمت عملی سے ایک دوسرے پر معاشی حملے کررہے ہیں کیونکہ وہ باہمی تجارت کو زیادہ نقصان نہیں پہنچانا چاہتے۔
ٹرمپ حکومت نے کئی یورپی ممالک سے آنے والے سامان پر بھی ٹیکسوں کی شرح بڑھادی۔ اس پر یورپی یونین بھی چیں بہ جبیں ہوئی۔ بعض یورپی حکومتوں نے ٹرمپ حکومت کے معاشی حملے کا جواب دیا اور امریکی مال پر نئے ٹیکس عائد کردیئے۔ غرض ٹرمپ حکومت کے معاشی حملوں نے بین الاقوامی معیشت میں ہلچل مچا دی اور اس کے استحکام کو ضعف پہنچایا۔خاص طور پر کئی ممالک کی کرنسیاں ڈالر کے مقابلے میں اپنی قدر کھو بیٹھیں ۔یہ امر اکثر ملکوں کو ڈالر سے متنفر کر سکتا ہے۔
ٹرمپ حکومت کے معاشی حملوں کا نشانہ وہ ممالک بھی بنے جو امریکا کی ہدایات من و عن تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ ان ممالک میں عالم اسلام کے تین ملک،ایران، ترکی اور پاکستان سرفہرست ہیں۔ ٹرمپ حکومت نے سب سے پہلے پاکستان کو معاشی حملے کا نشانہ بنایا۔ٹرمپ حکومت کا دعویٰ ہے کہ افغان طالبان کو پاک افواج کی حمایت حاصل ہے۔ اسی لیے 2002ء سے لے کر اب تک وہ افغانستان میں امریکی و نیٹو افواج کے خلاف گوریلا جنگ لڑنے میں کامیاب رہے۔ اسی الزام کے باعث ٹرمپ حکومت نے برسراقتدار آنے کے صرف سات ماہ بعد جولائی 2017ء میں ’’کوکیشن سپورٹ فنڈ‘‘ کی مد میں پاکستان کو دی جانے والی رقم روک دی جبکہ جنوری 2018ء میں اس رقم میں بہت کمی کردی گئی۔
ان معاشی حملوں کا مقصد یہی تھا کہ پاکستان کی معیشت اتنی کمزور کردی جائے کہ وہ امریکا سے ڈالروں کی بھیک مانگنے پر مجبور ہوجائے۔ یہ راہ اختیار کرتے ہوئے پاکستان کو امریکا کی پالیسیاں مجبوراً تسلیم کرنا پڑتیں۔امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان افغان طالبان پر دباؤ ڈال کر انہیں مذاکرات کی میز پر لے آئے اور یہ کہ افغان طالبان ہتھیار پھینک کر افغان حکومت کا حصہ بن جائیں۔ یہ عمل انجام پذیر ہونے کے بعد امریکی فوج باعزت طریقے سے افغانستان سے رخصت ہوسکتی ہے۔دوسری صورت میں امریکا کو ویت نام کے بعد افغانستان سے بھی ذلت و رسوائی اٹھا کر رخصت ہونا پڑے گا۔ تاہم پاکستان کئی بار اعلان کرچکا کہ وہ افغان طالبان پر اتنا زیادہ اثرورسوخ نہیں رکھتا کہ انہیں جنگ بندی پر آمادہ کرسکے۔ افغان طالبان ایک خود مختار اکائی ہیں جو اپنا راستہ خود بناتے ہیں۔
ٹرمپ حکومت یہ بھی چاہتی ہے کہ امریکا اور چین کے مابین جاری معاشی جنگ میں پاکستان کسی ایک فریق کا طرفدار بن جائے۔ پاکستانی حکومت کا المّیہ یہ ہے کہ فی الوقت وہ کھل کر امریکا یا چین کا ساتھ نہیں دے سکتی کیونکہ پاکستان کے دونوں کے ساتھ اہم معاشی مفادات وابستہ ہیں۔پاکستان کا سرکاری خزانہ تقریباً خالی ہے اور عمران خان حکومت کو ڈالروں کی اشد ضرورت ہے۔ مطلوبہ ڈالر اسے عالمی مالیاتی اداروں سے مل سکتے ہیں مگر شرط یہ ہے کہ پاکستانی حکومت امریکا کی پالیسیاں قبول کرلے۔
اکثر عالمی مالیاتی اداروں میں امریکا کا اثرورسوخ سب سے زیادہ ہے اور وہ امریکی حکومت کی ایما پر ہی مختلف ملکوں کو قرضے دیتے ہیں۔ گویا عمران خان حکومت نے اگر عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے لینے ہیں تو اسے امریکی حکومت کی’’ڈکٹیشن‘‘ یا ہدایات قبول کرنا پڑیں گی۔چین نے پاکستان میں سی پیک منصوبہ شروع کررکھا ہے۔ وہ پاکستان کو قرضے بھی فراہم کررہا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ماضی میں امریکا جس طرح وسیع پیمانے پر پاکستان کی معاشی و مالی مدد کرتا رہا ہے، اس انداز میں چین ابھی مدد کرنے کو تیار نہیں۔ یہ امر بھی پاکستان کو امریکا سے کلی طور پر ناتا توڑنے سے باز رکھے ہوئے ہے۔
ایک اور معاشی وجہ یہ کہ پاکستان کا سب سے زیادہ مال امریکی منڈیوں ہی میں جاتا ہے۔ اگر پاکستان نے علی الاعلان امریکا سے رشتہ توڑ لیا، تو پاکستان کو ایک بڑی منڈی سے محروم ہونا پڑے گا۔ گویا ضرورت اس مار کی ہے کہ پہلے پاکستان امریکی منڈی پر انحصار کم سے کم کرے تبھی وہ اس حیثیت میں آئے گا کہ اپنی شرائط پر امریکی حکومت سے مذاکرات کرسکے۔ فی الحال تو مذاکرات کی میز پر پاکستانی حکومت کی پوزیشن خاصی کمزور ہے۔
مزید براں بدلتی جغرافیائی سیاست کے باعث پاکستان امریکا کے لیے پہلے کی طرح زیادہ اہم ساتھی نہیں رہا۔ امریکی حکمران طبقہ اور امریکی فوج اب چین کو امریکا کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتی ہے جو معاشی و عسکری طور پر طاقتور ہورہا ہے۔ امریکی حکمران چین کے مقابلے میں بھارت کو کھڑا کرنا چاہتے ہیں تاکہ چینی معاشی سرگرمیوں خصوصاً ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے پھیلاؤ میں رکاوٹیں کھڑی کی جاسکیں۔ اسی لیے امریکی حکمران بھارت کی ناز برداری کرنے اور نخرے برداشت کرنے میں محو ہیں۔
بھارتی حکمران طبقہ اگرچہ کھل کر چین کے سامنے نہیں آنا چاہتا کیونکہ اس خفیہ و عیاں لڑائی میں بھارت کو اچھا خاصا نقصان پہنچ سکتا ہے۔(اپنے پڑوسی،پاکستان کی مثال اس کے سامنے ہے جس نے دوسروں کی جنگ میں شامل ہوکر بہت نقصان اٹھایا)اسی لیے مودی حکومت ٹرمپ سرکار کی تمام پالیسیوں پر آمنا صدقاً بھی نہیں کہنا چاہتی۔مثال کے طور پر مودی حکومت روس سے ایس۔400 جدید ترین میزائل خریدنا چاہتی ہے۔ اگر یہ معاہدہ ہوا تو بھارت پر امریکی پابندیاں لگ سکتی ہیں۔ امریکی کانگریس نے اگست 2017ء میں ایک بل (CAATSA) منظور کیا تھا۔ اس کی رو سے جو ممالک روسی کمپنیوں سے کاروبار کریں گے، ان پر امریکی معاشی پابندیاں لگ جائیں گی۔
اس کے علاوہ بھارت ایران سے بھی تجارتی تعلقات توڑنے کو تیار نہیں۔ بھارت بڑی مقدار میں ایرانی تیل خریدتا ہے۔ کچھ عرصے سے اس مقدار میں کمی آگئی ہے لیکن بھارت ایران کے ساتھ تجارتی تعلقات ختم کرنے کے حق میں نہیں۔جبکہ ٹرمپ حکومت مودی پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ ایران سے معاشی تعلقات توڑ لے۔بھارت نے ایران سے تجارتی رشتہ برقرار رکھا تب بھی امریکی کمپنیاں آزادی سے بھارتی کمپنیوں کے ساتھ کاروبار نہیں کر سکیں گی۔
روس اور ایران کی سمت بھارت کے بدستور جھکاؤ کی وجہ سے ہی ٹرمپ حکومت مخمصے کا نشانہ بن چکی۔گو وہ نت نئے عسکری و سول معاہدے کر کے بھارتی حکمرانوں کو رام کرنے کی کوشش کر رہی ہے مگر تعلقات میں پہلے جیسی گرم جوشی نہیں رہی۔اسی باعث اب امریکی حکمران طبقہ کو احساس ہو چکاکہ براعظم ایشیا میں بہ لحاظ آبادی چوتھا بڑا ملک،پاکستان بھی اہم اتحادی ہے اور اس کے ساتھ زیادہ بگاڑ مناسب نہیں۔ یہی وجہ ہے، جب عمران خان کی نئی حکومت آئی تو امریکی وزیر خارجہ نے پاکستان جانے کا اعلان کردیا۔ یاد رہے،کسی بھی امریکی حکومت میں صدر کے بعد وزیر خارجہ اور وزیر دفاع کے عہدے سے ہی سب سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں اور ٹرمپ حکومت میں یہ دونوں عہدے سابق فوجیوں کے ہاتھوں میں ہیں جو مذہبی و سیاسی لحاظ سے قدامت پسند ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ نے پہلے تو وزیراعظم بننے پر عمران خان کو مبارکباد دی۔ لیکن نئی پاکستانی حکومت نے ترکی اور ایران کے ساتھ تعلقات میں گرم جوشی دکھائی تو امریکی وزیر خارجہ نے دو پاکستان مخالف اعلان داغ دیئے۔ پہلے دھمکی دی کہ امریکہ آئی ایم ایف سے پاکستان کو قرضہ نہیں لینے دے گا۔
پھر امریکا نے کولیشن سپورٹ فنڈ کے 300 ملین ڈالر روکنے کا بیان دے ڈالا۔ اس طرح نئی پاکستانی حکومت کو ترغیبات دینے کے ساتھ ساتھ دھمکیاں بھی دی گئیں۔کچھ عرصہ سے ترکی بھی امریکا کے معاشی حملوں کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ یہ معاشی حملے اس لیے ہوئے کیونکہ ایران کے خلاف محاذ میں ترکی نے امریکا کا حلیف بننے سے انکار کردیا۔ وجہ یہ کہ شام میں بشار الاسد حکومت کے خلاف جاری امریکی جنگ میں ترکی امریکا کا اتحادی رہا ۔لیکن اس جنگ نے ترکی کو معاشی طور پر خاصا نقصان پہنچا دیا۔ لاکھوں شامی مہاجرین نے ترکی میں ڈیرے ڈال دیئے۔ پھر شام کے ساتھ ترکی کی طویل سرحد بھی غیر محفوظ ہوگئی۔ لہٰذا ترکی اب امریکی حکمرانوں کی خاطر ایران کے ساتھ لڑائی مول لینے کو تیار نہیں۔
ترکی کو جُھکانے کی خاطر ٹرمپ حکومت نے ترک مال تجارت پر عائد ٹیکسوں کی شرح بڑھادی۔ اس عمل سے ترک کرنسی کی قدروقیمت گرگئی اور مقامی معیشت کو خاصا نقصان پہنچا۔ امریکا کے معاشی حملے کو تاہم ترک معیشت برداشت کرگئی۔ وجہ یہ ہے کہ صدر طیب اردوان نے پچھلے پندرہ سولہ برس میں معقول معاشی پالیسیوں کے باعث ملکی معیشت کو مضبوط و مستحکم بنا دیا ہے۔ٹرمپ حکومت ایران پر بھی معاشی حملے کررہی ہے۔ امریکا، یورپی یونین اور ایران نے مل کر جولائی 2015ء میں ایٹمی معاہدہ کیا تھا۔
مقصد یہ تھا کہ ایران ایٹم بم بنانے کا اپنا پروگرام منجمد کردے۔ مئی 2018ء میں ٹرمپ حکومت نے یکطرفہ طور پر اس معاہدے سے نکلنے کا اعلان کردیا۔ اگلے ہی دن ایرانی کرنسی کی قیمت گرگئی۔ تاہم یورپی یونین نے یہ معاہدہ برقرار رکھا ہے، اس باعث ایرانی معیشت کو اتنا زیادہ نقصان نہیں پہنچا۔ مگر ٹرمپ حکومت اقوام متحدہ کی وساطت سے ایران پر نئی عالمی پابندیاں لگانے میں کامیاب رہی تو ایرانی معیشت گھمبیر مسائل کا نشانہ بن سکتی ہے۔
ترکی اور ایران پہ امریکا کے معاشی حملوں کا ایک بڑا مقصد اپنے آقا،اسرائیل کو تقویت پہنچانا بھی ہے۔امریکی و اسرائیلی حکمران اپنی خفیہ و عیاں چالوں سے قطر و شام کے علاوہ اکثر عرب ممالک کو کم ازکم غیر جانب دار ضرور بنا چکے۔ ترکی و ایران لیکن فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کی وجہ سے اسرائیل کے کٹر مخالف ہیں۔امریکی حکمران دونوں اسلامی ملکوں پر معاشی حملے کر کے انھیں اتنا ناتواں بنانا چاہتے ہیں کہ وہ عسکری لحاظ سے اسرائیل کے لیے خطرہ نہ رہیں۔
امریکا کے نئے طرز جنگ،معاشی حملوں کا مقابلہ کرنے کی خاطر چین،روس اور ان کے ہمنوا ممالک مختلف تدابیر پر غور کر رہے ہیں۔ان میں سے ایک تدبیر یہ بھی ہے کہ دیگر ملکوں سے تجارت ڈالر کے بجائے اپنی قومی کرنسی یا دیگرکرنسیوں مثلاً چینی ین یا یورپی یورو میں کی جائے۔ڈالر نے امریکا کو سپرپاور بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ڈالر کی کمزوری اسے بھی کمزور کر دے گی۔
The post ’معاشی حملہ‘ جدید دور کا انوکھا طرز ِجنگ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2xZH0bX
وائٹ ہاؤس کے چند دلچسپ حقائق
1600 پینسلوینیا ایونیو پر واقع 220 سال پرانی یہ عمارت اپنی تعمیر سے لے کر آج تک دنیا کی اہم ترین اور غیر معمولی عمارتوں میں سے ایک گردانی جاتی ہے۔ اس کی اہمیت وخصوصیت اس کے طرز تعمیر کی وجہ سے نہیں بلکہ اس حیثیت کے باعث ہے جو اسے حاصل ہے۔
جی ہاں، یہ وائٹ ہاؤس ہے جسے ’’صدارتی محل‘‘ یا ’’ایگزیکٹو مینشن‘‘ بھی کہا جاتا ہے اور یہاں معنوی اعتبار سے دنیا کا طاقتور ترین فرد یعنی امریکہ کا صدر رہائش پذیر ہوتا ہے۔ یہ تو وہ حقائق ہیں کہ جو آج تقریباً ہر پڑھا لکھا شخص جانتا ہے، تاہم اس عمارت کے متعلق چند دلچسپ باتیں ایسی بھی ہیں جو شاید سب لوگوں کے علم میں نہ ہوں۔ آئیے آپ کو ان سے آگاہ کرتے ہیں۔
-1 جارج واشنگٹن اس میں کبھی بھی نہیں رہے :۔ موجودہ امریکہ کے بانی اور پہلے صدر جارج واشنگٹن نے اس جگہ کو یعنی وائٹ ہاؤس جہاں یہ آج واقع ہے، 1791ء میں صدارتی محل کی تعمیر کے لیے منتخب کیا اور اس کے حتمی ڈیزائن کی منظوری دی۔ 13 اکتوبر 1792ء کو اس کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور اس کی تعمیر کا آغاز ہوگیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صدر واشنگٹن جن کی مدت صدارت 1797ء میں ختم ہوئی اور وہ 1799ء میں وفات پاگئے، کو یہ موقع ہی نہ مل سکا کہ وہ اس صدارتی محل میں قیام کرسکیں۔ 1800ء میں دوسرے امریکی صدر جون ایڈمز اپنی بیگم ’’ابیجیل‘‘(Abigail) کے ساتھ نامکمل وائٹ ہاؤس میں منتقل ہوگئے اور یوں وہ پہلے امریکی صدر تھے جو وائٹ ہاؤس میں رہائش پذیر ہوئے۔ وائٹ ہاؤس کی عمارت اور ملحقہ باغات 18 ایکڑز پر پھیلے ہوئے ہیں۔
-2 یہ عمارت کافی وسیع و عریض ہے :۔ گو وائٹ ہاؤس کی عمارت آج کل کی دیگر عمارتوں کے مقابلے میں زیادہ بڑی تو نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ امریکی خانہ جنگی کے بعد تک بھی ملک کی سب سے بڑی عمارت تھی۔ اس میں 132 کمرے، چھ منزلوں میں 35 غسل خانے، 412 دروازے، 147 کھڑکیاں، 28 آتش دان، 8 سیڑھیاں اور 3 لفٹس ہیں۔ یہ عمارت 168 فٹ لمبی اور 85 فٹ چوڑی (بیرونی برآمدوں کے علاوہ) جبکہ جنوبی سمت سے 70 فٹ اونچی اور شمالی جانب سے 60 فٹ 4 انچ اونچی ہے۔
-3 برطانوی فوج کی طرف سے لگائی گئی آگ :۔ 1812ء کی برطانیہ امریکہ جنگ کے دوران 1814ء میں برطانوی فوج نے وائٹ ہاؤس پر چڑھائی کردی۔ اس حملے میں انہوں نے وائٹ ہاؤس کو نظر آتش کردیا۔ انہوں نے یہ کارروائی امریکی فوجیوں کی جانب سے کینیڈا کے صوبے ’’اونٹاریو‘‘ (Ontario) کے شہر ’’یارک‘‘ (York) میں عمارتوں کو آگ لگانے پر بدلہ لینے کے لیے کی تھی۔ آگ نے وائٹ ہاؤس کے اندرونی حصے اور چھت کو مکمل طور پر تباہ کردیا۔ امریکی صدر ’’جیمز میڈیسن‘‘ (James Madison) نے وائٹ ہاؤس کے اصل ڈیزائنر ’’جیمز ہوبان‘‘ (James Hoban) کو طلب کرکے عمارت کی فوری تعمیر نو کا حکم دیا۔ بدقسمتی سے صدر میڈیسن اور ان کی بیگم دوبارہ کبھی وائٹ ہاؤس میں آ کر نہیں رہ سکے۔ البتہ تعمیر نو کا کام مقررہ مدت میں مکمل ہوگیا اور 1817ء میں نئے منتخب صدر ’’جیمز مونروے‘‘ (James Monroe) وہاں منتقل ہوگئے۔
-4 1901ء تک اس کا کوئی سرکاری نام نہ تھا :۔ وائٹ ہاؤس گو کہ 1800ء سے تمام ہی امریکی صدور کی سرکاری رہائش گاہ رہا ہے مگر اس کو وائٹ ہاؤس کا نام 1901ء میں صدر ’’تھیوڈرر روز ویلیٹ‘‘ (Theodore Roosevelt) نے اپنی سرکاری دستاویزات میں دیا۔ اس سے قبل اسے ’’پریذیڈنٹ ہاؤس‘‘ یا ’’پریذیڈنٹ منشن‘‘ کہا جاتا تھا۔ کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اسے وائٹ ہاؤس کا نام اس وقت دیا گیا جب آگ لگنے کے بعد دھویں سے کالی ہوجانے والی دیواروں پر سفید پینٹ کیا گیا۔ تاہم بیشتر تاریخ دان اس نظریے سے اتفاق نہیں کرتے۔
-5 عورتوں کا حق رائے دہی کے حصول کے لیے دو سال تک احتجاج :۔ 10 جنوری 1917ء کو صدر ’’وڈو ولسن‘‘ (Woodrow Wilson) کی صدارت شروع ہونے کے ساتھ ہی عورتوں کے ایک گروہ جو ’’دی سائلینٹ سینٹینلز‘‘ The Silent Sentinels (خاموش محافظ) کہلاتا تھا، نے وائٹ ہاؤس کے گیٹ کے سامنے احتجاج کا آغاز کیا۔ ’’نیشنل وومن پارٹی‘‘ کی نمائندگی کرنے والے عورتوں کے اس گروہ کا مطالبہ تھا کہ عورتوں کو بھی ووٹ کا حق دیا جائے۔ یاد رہے کہ اس وقت تک بھی امریکہ میں عورتوں کو حق رائے دہی حاصل نہ تھا۔ ان عورتوں نے اپنے مطالبے کی منظوری تک وہاں سے ہٹنے اور احتجاج موخر کرنے سے انکار کردیا۔ یہ گروہ وائٹ ہاؤس کے سامنے اڑھائی برس تک مسلسل موجود رہ کر احتجاج کرتا رہا۔ اس دوران انہیں متعدد بار ہراساں کیا گیا، ان کے ساتھ انتہائی برا سلوک اور بدتمیزی روا رکھی گئی۔ یہاں تک کہ انہیں زدوکوب بھی کیا گیا۔ لیکن وہ اپنی دھن کی پکی ثابت ہوئیں۔ بالآخر 4 جون 1919ء کو 19 ویں آئینی ترمیم کے پاس ہونے پر عورتوں کو رائے دہی کا حق مل گیا۔
-6 آسیب زدہ ہونے کی افواہیں :۔ امریکہ کے بہت سے صدور، ان کی بیگمات، عملے کے افراد اور مہمانوں نے مبینہ طور پر بھوتوں کو متعدد بار اس تاریخی عمارت کے کمروں میں منڈلاتے ہوئے دیکھا۔ 1789-97ء میں پہلے امریکی نائب صدر اور 1797-1801ء میں دوسرے امریکی صدر رہنے والے صدر جون ایڈمنٹر کی اہلیہ ’’ابیگیل ایڈمز‘‘ (Abigail Adms) کا بھوت وائٹ ہاؤس کے مشرقی کمرے میں دیکھا گیا جہاں وہ اپنے دھلے ہوئے کپڑے لٹکایا کرتی تھیں۔
مشہور امریکی صدر ابراہم لنکن کی اہلیہ ’’میری ٹوڈ لنکن‘‘ (Mary Todd Lincoln) نے اپنے دوستوں کو بتایا تھا کہ انہوں نے 7 ویں صدر اینڈریو جیکسن کی غصیلے لہجے میں گالیاں دینے اور زور زور سے پاؤں پٹخنے کی آوازیں وائٹ ہاؤس کے کئی ہال کمروں میں سنیں۔ تاہم ان میں سب سے زیادہ شہرت خود صدر ابراہم لنکن ہی کے بھوت کو ملی جس کو دیکھنے کا دعویٰ 30 ویں صدر ’’کیلوین کولیج‘‘ (Calvin Coolidge) صدر جونسن اور صدر روز ویلٹ کی بیگمات نے کیا اور تو اور دوسری جنگ عظیم میں وہائٹ ہاؤس کے قیام کے دوران برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل کو بھی ابراہم لنکن کا بھوت دیکھنے کا ’شرف‘ حاصل ہوا۔
-7 پالتو ریچھ، شیر کے بچے اور دیگر جنگلی جانور :۔ اگرچہ بہت سے امریکی صدور نے وائٹ ہاؤس میں پالتو جانور، جیسے کتے بلیاں وغیرہ رکھے لیکن کئی صدور نے اس سے آگے بڑھ کر ایسے جانور بھی وہاں پالے جو عام پالتو جانوروں میں شمار نہیں کیے جاتے اور فارم ہاؤسز میں رکھے جانے والے جانور تصور ہوتے ہیں۔ تاہم چند صدور تو اس سے بھی آگے جاکر جنگل کے جانوروں کو بھی وائٹ ہاؤس میں لے آئے۔ مشہور امریکی صدر جون ایف کینڈی پالتو جانوروں کے زیادہ ہی دلدادہ تھے۔ ان کے دور صدارت میں وہائٹ ہاؤس کے گراؤنڈز مختلف انواع کے پرندوں، ہامسٹرز Hamsters (چوہے جیسا ایک جانور)، خرگوشوں، کتوں، بلیوں اور گھوڑوں سے بھرے رہتے تھے۔ صدر تھامس جیفرسن نے وائٹ ہاؤس میں ریچھ کے دو بچے رکھے ہوئے تھے۔
امریکہ کے 8 ویں صدر ’’مارٹن وین برن‘‘ نے وائٹ ہاؤس میں شیر کے بچوں کا جوڑا پالا ہوا تھا جو انہیں اومان کے سلطان نے تحفے میں دیا تھا۔ کانگریس نے صدر مارٹن کو مجبور کیا کہ وہ اس جوڑے کو چڑیا گھر میں بھیج دیں کیونکہ وہ نجی نہیں بلکہ ایک سرکاری تحفہ تھا (ہمارے لیے یہ غور طلب بات ہے کہ ہمارے حکمران غیر ملکوں سے ملنے والے تحائف کو ذاتی سمجھ کر اپنے ساتھ گھر لے جاتے ہیں)۔ صدر ولیم ہنری ہیریسن نے ایک بکرا اور ایک گائے وائٹ ہاؤس میں رکھی ہوئی تھیں جبکہ صدر ’’جیمس بچانن‘‘ کے پاس امریکہ کے مشہور گنجے عقابوں کا جوڑا اور کتے کے بچوں، پونی گھوڑوں اور مچھلیوں کا پورا غول موجود تھا۔ صدر گرور کلیولینڈ کو مرغ بانی کا شوق تھا اور وہ اپنا یہ شوق وائٹ ہاؤس میں بھی پورا کرتے تھے۔
-8 وائٹ ہاؤس کے لیے ٹنوں پینٹ درکار ہوتا ہے :۔ دوسری تمام تاریخی عمارتوں کی ہی طرح وائٹ ہاؤس کو جاذب نظر بنائے رکھنے کے لیے مرمت و تزین و آرائش کا کام چلتا رہتا ہے۔ تاہم دوسرے گھروں کے برخلاف وائٹ ہاؤس کے بیرونی حصے کو پینٹ کرنے کے لیے تقریباً 3 ٹن سفید پینٹ درکار ہوتا ہے جس میں سے 300 گیلن پینٹ عمارت کے رہائشی حصے کو پینٹ کرنے میں استعمال ہوتا ہے۔ 1992ء میں جب وائٹ ہاؤس کی تزین نو کی گئی تو اس کی بیرونی دیواروں پر سے رنگ کی قریباً 30 پرتیں اتاری گئیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ایسے تو وائٹ ہاؤس کو سالانہ بنیادوں پر پینٹ کیا جاتا ہے، البتہ ہلکی پھلکی لیپا پوتی تو سارا سال ہی جاری رہتی ہے۔
-9 کیا وائٹ ہاؤس کے نیچے خفیہ کمانڈ سینٹر موجود ہے؟ 2010ء میں تعمیراتی عملے نے وائٹ ہاؤس کے مشرقی حصے کے سامنے واقع گراؤنڈ میں ایک بہت بڑا گڑھا کھودنا شروع کیا۔ اس دوران اس حصے کو سبز رنگ کی باڑ سے ڈھانپ دیا گیا تھا تاکہ یہاں ہونے والے تعمیراتی کام کو خفیہ رکھا جاسکے۔ دو سال بعد یہ باڑ ہٹا دی گئی اور زمین کی سطح دوبارہ ہموار کرکے پختہ کردی گئی۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے یہاں کچھ کام ہوا ہی نہیں۔ سرکاری طور پر بتایا گیا کہ یہ تعمیراتی کام مشرقی حصے میں موجود زیر زمین سہولیاتی مشینری جیسے ایئرکنڈیشنگ اور سیوریج سسٹم کی مرمت اور بحالی کے سلسلے میں کیا گیا تھا مگر کنکریٹ سے لدے درجنوں بھاری بھرکم ٹرکوں کی آمدورفت اور بڑے بڑے شہتیروں کے یہاں لائے جانے نے معاملے کو متجسس شہریوں کے لیے مشکوک بنا دیا اور طرح طرح کی باتیں پھیلنے لگیں۔ کہا جاتا ہے کہ وائٹ ہاؤس میں زیر زمین خفیہ کمانڈ سینٹر بنانے کا منصوبہ 50 برس قبل بنایا گیا تھا جو آخر کار اب روبہ عمل لایا گیا۔
-10 وائٹ ہاؤس میں ہونے والے بدتہذیبی کے واقعات :۔ جدید دور میں امریکہ کے نئے آنے والے اور سبکدوش ہونے والے صدور کے درمیان اقتدار کی منتقلی کا عمل نہایت پرسکون اور باوقار رہا ہے اور حالیہ برسوں میں سابق ہوجانے والے چند صدور نے انتہائی پر امن طریقے سے وائٹ ہاؤس کو خیر باد کہا۔ تاہم تاریخ میں ایسا بھی ہوا کہ رخصت ہونے والے کچھ صدور نے نئے صدر کے ساتھ بات چیت تک سے گریز کیا۔ اس کی ایک مثال 1932ء میں صدر ہوور اور روز ویلٹ کے مابین دیکھنے میں آئی۔
البتہ کئی جانے والی حکومتوں نے آنے والی انتظامیہ کے ساتھ بے ضرر قسم کے مذاق ضرور کیے۔ خاص طور 2001ء میں جب جارج بش کی انتظامیہ اقتدار سنبھالنے لگی تو بظاہر بل کلنٹن کے عملے نے وائٹ ہاؤس کو 20 ہزار ڈالرز کا نقصان پہنچایا۔ انہوں نے 30 تا 60 کمپیوٹرز کے کی بورڈز‘‘ میں سے ”W” کے حروف کے بٹن نکال کر وائٹ ہاؤس کی دیواروں پر مختلف جگہوں پر چسپاں کردیئے۔ علاوہ ازیں مبینہ طور پر انہوں نے دروازوں کی نابیں چوری کرلیں، میزوں کی درازیں گوند لگا کر چپکا دیں اور قریباً 100 ٹیلی فون لائنز ڈائیورٹ کردیں تاکہ ان پر آنے والی کالز دوسرے نمبروں پر منتقل ہوجائیں اور نئے عملے کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑے۔
-11 وائٹ ہاؤس میں کل وقتی 3000 سے زائد لوگ کام کرتے ہیں :۔ جب سبکدوش ہونے والا کوئی امریکی صدر وائٹ ہاؤس سے رخصت ہوتا ہے تو وہ اپنا عملہ بھی ساتھ لے جاتا ہے تاکہ آنے والا نیا صدر اپنی مرضی کا عملہ تعینات کرسکے۔ مگر یک مشت 3 ہزار 3 سو کل وقتی اہلکار بھرتی کرنا کوئی کھیل نہیں ہے۔ ان میں وہ لوگ شامل نہیں جو وہاں جزوقتی کام کرتے ہیں یا وہ لوگ جن کی ملازمت تو وائٹ ہاؤس میں ہی ہوتی ہے لیکن ان کے دفاتر وائٹ ہاؤس سے باہر ہوتے ہیں۔ وائٹ ہاؤس کے صرف دفتر ہی میں 500 افراد ملازم ہوتے ہیں۔ نائب صدر کے دفتر میں 100، فوجی دفتر میں 1300 اور مینجمنٹ اینڈ بجٹ کے دفتر میں تقریباً 500 لوگ جبکہ 500 سے زائد خفیہ اہلکار اور 200 افراد صدر کی حفاظت پر مامور ہوتے ہیں۔
-12 وائٹ ہاؤس کا اصلی سنگ بنیاد غائب ہوگیا :۔ وائٹ ہاؤس کے اسراروں میں سب سے زیادہ نمایاں اور قابل ذکر اس کے اصلی سنگ بنیاد کا غائب ہوجانا ہے۔ 1792ء میں اپنے نصب کیے جانے کے محض 24 گھنٹے بعد ہی وائٹ ہاؤس کا سنگ بنیاد اور کندہ کی ہوئی پیتل کی پلیٹ غائب ہوگئی اور اس کے بعد آج تک کسی نے انھیں نہیں دیکھا۔ وائٹ ہاؤس کی تعمیر کا کام کرنے والے راج مستریوں نے اس کے غیاب سے خود کو بری ذمہ قرار دیا۔ متعدد صدور جن میں ’’روز ویلیٹ اور ٹرومین‘‘ شامل ہیں، نے اس کو تلاش کروانے کی کوششیں کیں مگر ناکام رہے اور یہ کوششیں لاحاصل اور بے سود رہیں۔ ایک روایت یہ ہے کہ یہ سنگ بنیاد وائٹ ہاؤس کے ’’روزگارڈن‘‘ کی دو سنگی دیواروں کے درمیان چھپا ہوا ہے تاہم اس بات کی آج تک تصدیق نہیں ہوسکی۔
The post وائٹ ہاؤس کے چند دلچسپ حقائق appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2zFualp
انسانوں کی حیوانیت کے ہاتھوں مٹتے جانور
کینیا کے علاقے اوسیوان میں دو شیر کئی ہفتوں سے مویشیوں اور بھیڑ بکریوں کوخوراک بنارہے تھے۔ نقصان اٹھاتے اٹھاتے ماسائی قبیلے کے چرواہوں کی ہمت جواب دے چکی تھی۔
گزشتہ دسمبر میں ماسائیوں نے کینیا وائلڈ لائف سروس کو تنبیہہ کردی تھی کہ انھیں خونخوار درندوں سے نجات دلائی جائے بہ صورت دیگر وہ خود اس مسئلے کا حل تلاش کرلیں گے۔ اس سنگین مسئلے پر سوچ بچار کے لیے قبیلے میں کئی اجتماعات ہوچکے تھے۔ ایسے ہی ایک اجتماع میں نوجوان ماسائی جنگجُو سواہیلی نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر وائلڈ لائف سروس نے جلد ہی شیروں کا خاتمہ نہ کیا تو وہ خود انھیں ہلاک کر ڈالیں گے کیوں کہ ’ہم جانتے ہیں کہ شیر کو کیسے مارا جاتا ہے۔‘
سواہیلی کا اشارہ محض اپنے ترکش میں سجے تیروں کی جانب نہیں تھا بلکہ اس کی مراد قاتل زہر سے بھی تھی جسے اب گلہ بان اور چرواہے شیروں سے اپنے مویشیوں کی حفاظت کے لیے مؤثر ہتھیار کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ شیر کینیا کا قومی نشان و جانور ہے تاہم ماسائی چرواہے اسے قومی علامت کے طور پر نہیں بلکہ ایسے عفریت کے طور پر دیکھتے ہیں جو ان کے ذریعۂ معاش کو نگل جاتا ہے۔ کینیا وائلڈ لائف سروس شیروں کے تحفظ کے لیے سرگرم عمل ہے، تاہم مقامی باشندے اس کی قومی جانور کو نقصان نہ پہنچانے کی اپیلوں پر اب کان نہیں دھرتے۔
کینیتھ اولے ناشوو نے جو کینیا وائلڈ سروس سے بہ طور سنیئر وارڈن وابستہ ہیں، دیہاتیوں کے ہاتھوں شیروں کی ہلاکت کے بڑھتے ہوئے واقعات کے بعد فیصلہ کیا کہ قومی جانور کے تحفظ کے لیے انھیں اوسیوان میں امبوسیلی نیشنل پارک کے شمالی حصے سے، جہاں مویشیوں کی ہلاکتوں کے واقعات پیش آرہے تھے، ساؤ ویسٹ کے نیشنل پارک میں منتقل کردیا جائے جو اوسیوان سے زیادہ دور نہیں تھا، تاہم یہ مرحلہ آسان نہ ہوتا، اس کے لیے شیروں کو بے ہوش کرنا ضروری تھا۔ کرسمس سے ایک دن پہلے کی شام اولے ناشوو اور ان کے ساتھی رینجرز شیروں کے تحفظ کے لیے فعال ’ لائن گارجینز‘ نامی گروپ کے رکن لیوک مامائی کی ہمراہی میں ایک لینڈ کروزر میں سوار ہوکر جھاڑیوں کے درمیان نسبتاً کُھلی جگہ پر پہنچے اور گاڑی کا انجن بند کردیا۔ آسمان پر چاند روشن تھا اور اس کی چاندنی میں اردگرد کا منظر بڑی حد تک واضح تھا۔ کینیتھ اور اس کے ساتھی شیروں کی آمد کے منتظر تھے۔
مامائی نے جو ماسائی قبیلے کا فرد ہے، گاڑی کی چھت پر لاؤڈ اسپیکر رکھا، کچھ ہی لمحوں کے بعد شب کی تاریکی میں موت سے ہمکنار ہوتی گائے کے ڈکرانے کی آواز گونجنے لگی جسے نظرانداز کرنا شیر کے لیے ممکن نہیں۔ کینیتھ اور اس کی ٹیم کو زیادہ دیر انتظار کی زحمت نہیں اٹھانی پڑی۔ لب مرگ گائے کی صدا خاموش ہوئے پندرہ منٹ ہی گزرے تھے کہ دائیں جانب کی جھاڑیوں سے ایک بڑے چوپائے کا ہیولا نکلتا ہوا دکھائی دیا۔ یہ ایک شیرنی تھی۔ وہ گاڑی سے دس گز کے فاصلے پر آکر رُک گئی اور پھر محتاط انداز میں ایک پستہ قامت درخت کی جانب بڑھنے لگی جس کی شاخوں سے مامائی نے بکری کی آلائشیں لٹکا دی تھیں۔ اولے ناشوو نے دوسری لینڈکروزر میں بیٹھے ہوئے ایک شخص کو اشارہ کیا جو ہاتھوں میں ڈارٹ رائفل (بے ہوشی کی برچھی فائر کرنے والی بندوق) تھامے ہوئے تھا۔
چند ہی لمحوں بعد اولے ناشوو اپنے آدمیوں کو بے ہوش شیرنی پنجرے میں منتقل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے ایک کام یاب مشن کی تکمیل پر ساتھیوں کو مبارک باد پیش کررہا تھا۔ اوولے کا کہنا تھا کہ دو شیرنیوں میں سے ایک کی ’گرفتاری‘ سے شیروں کی جوڑی کو زک پہنچے گی اور دونوں بھائی مویشیوں کو نشانہ بنانا چھوڑ دیں گے۔ اوولے کا یہ دعویٰ بہ ظاہر عجیب و غریب تھا کیوں کہ دونوں شیر آزاد تھے اور ان کے منہ کو خون لگ چکا تھا۔
رات خاصی گزر چکی تھی۔ میں اور میرا رہبر اور شکاری پرندوں کا ماہر سائمن تھامسیٹ، اس کی لینڈکروزر میں سونے کی سعی کررہے تھے جب غراہٹ کی آوازیں ہمارے کانوں سے ٹکرائیں۔ بہ تدریج یہ آوازیں قریب آتی چلی گئیں۔ اندازہ ہوا کہ یہ غراہٹیں دو شیروں کی تھیں جو ممکنہ طور پر شیرنی کو کھوج رہے تھے۔ ڈارٹ گن کی مدد سے ایک شیر کو پکڑ لیا گیا جب کہ دوسرا بچ نکلا۔ پکڑے گئے شیر اور شیرنی کو بعدازاں ساؤ ویسٹ کے نیشنل پارک میں چھوڑ دیا گیا۔ سابقہ تجربات کی بنیاد پر اندازہ تھا کہ ممکنہ طور پر دونوں درندے زندہ نہیں رہ پائے ہوں گے کیوں کہ پہلے سے موجود شیروں نے انھیں اپنا ساتھی نہیں بلکہ درانداز تصور کیا ہوگا اور اس کا نتیجہ عموماً نوواردوں کی پُرتشدد موت کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔
کے ڈبلیو ایس کے شعبہ ویٹرنری خدمات کے سربراہ فرانسس گاکو نے جوکینیا میں جنگلی حیوانات کی بہبود کے ذمے دار ہیں، شیروں کو آزاد کرنے کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا،’’ہم انھیں دوسرا موقع دینا چاہتے ہیں۔‘‘ تاہم فرانسس کے برعکس شیروں کے کئی ماہرین کا یقین ہے کہ شیروں کو نئے مسکن میں منتقل کرنے کے بجائے انھیں دیکھتے ہی ہلاک کردینا انسانیت کے زیادہ قریب ہوتا۔
اسی دوران وارڈن کی سوچ کے برخلاف بچ جانے والے شیر نے مویشیوں کو خوراک بنانے کا سلسلہ جاری رکھا، تاہم اس بار گلہ بانوں نے، جو ممکنہ طور پر مقامی نہیں تھے، بیرونی مدد طلب نہیں کی۔ انھوں نے مُردہ بکری اور گائے پر زہریلے کیمیکل چھڑک دیے۔ شیر اور شیرنی نے جب ان مُردہ جانوروں کے گوشت سے شکم سیری کی تو زہرخورانی کا شکار ہوکر جان سے چلے گئے۔ جب اس واقعے کی اطلاع کے ڈبلیو ایس کو ہوئی اور وہاں سے تحقیقات کے لیے ویٹرنیرین ( جانوروں کا ڈاکٹر) بھیجا گیا، اس وقت تک شیروں کی نعشیں گل سڑ چکی تھیں۔
ویٹرنیرین کو ’جائے وقوعہ‘ پر لگڑبھگڑ اور گدھ کی باقیات بھی نظر آئیں جو یقیناً مُردہ مویشیوں کا زہرآلود کھانے کے باعث ہلاک ہوئے تھے۔ کینیا میں یہ مناظر عام ہوچکے ہیں۔ بدقسمتی سے ویٹرنیرین نے جانچ کے لیے مُردہ مویشیوں اور شیروں کے نمونے حاصل نہیں کیے تھے حالاں کہ کئی قسم کے زہر ایسے ہیں جو طویل عرصے تک متأثرہ جانوروں کی باقیات میں موجود رہ سکتے ہیں۔ لہٰذا یہ معلوم نہیں ہوسکتا تھا کہ شیروں کو ہلاک کرنے کے لیے کون سا زہر استعمال کیا گیا تھا، جو اس کا علم رکھتے تھے وہ ممکنہ طور پر اس بارے میں بات کرنے سے انکاری ہوتے۔
کینیا اور افریقا بھر میں چھوٹے جانوروں کو بہ غرض حصول خوراک، ہاتھیوں اور گینڈوں کو ان کے سینگ، اور دیگر جانوروں کو ادویہ میں ان کے اعضا کی ضرورت کی وجہ سے زہر دے کر مار دینے کا رواج عام ہوچکا ہے، یہ واضح نہیں ہے کہ انسانی صحت پر زہر کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ زہر کے استعمال کی ایک اور تکلیف دہ صورت انسان اور جنگلی جانوروں کے مابین ٹھن جانے کے بعد سامنے آتی ہے جب کوئی شیر یا لگڑ بھگڑ مویشیوں کو نشانہ بناتا ہے، یا پھر کوئی ہاتھی جب ان کی فصلوں اور املاک کو نقصان پہنچاتا ہے۔ زہر کی یہ قسم کیڑے مار زہر پر مشتمل ہوتی ہے کیوں کہ حشرات کُش زہر ارزاں قیمت پر اور عام مل جاتے ہیں نیز مہلک بھی ہوتے ہیں۔
گاکویا اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ زہر کا استعمال ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے، اور اوسیوان کی صورت حال سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ ہنوز حل طلب ہے۔
مزاحمت کے طور پر زہر دینے کے واقعات کہیں بھی کسی بھی لمحے پیش آسکتے ہیں مگر اکثر اس کے شواہد من گھڑت اور نامکمل ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود کینیا کی جنگلی حیات کی نگرانی کرنے والے ماہرین حیاتیات، کینیا والڈ لائف سروس کے ملازمین اور جنگلی حیاتیات کے تحفظ کے ادارے اس بات پر متفق ہیں کہ زہر دینے کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے کیوں کہ انسانوں اور جنگلی حیات کے مابین تصادم بڑھ رہا ہے۔
کینیا کے محفوظ علاقے بشمول جنوب کا ماسائی مارا، امبوسیلی، ساوو ویسٹ اور ساوو ایسٹ پارک، سب کے سب محاصرے میں ہیں۔ شاہراہوں، ریلوے لائنوں، بجلی گھروں کی تعمیر اور بھاری صنعتوں، ہائی ٹیک سینٹرز اور وسعت پذیر شہروں کو بجلی کی فراہمی کے لیے ٹرانسمیشن لائنوں کا پھیلتا ہوا جال محفوظ علاقوں کے گرد گھیرا تنگ کرتا جارہا ہے۔ کینیا کی آبادی جس کی ضروریات کے لیے مقامی وسائل پہلے ہی ناکافی ہوچکے ہیں، 2050ء تک متوقع طور پر دُگنی ( آٹھ کروڑ ) ہوجائے گی۔ بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ اراضی کو زیرکاشت لایا جارہا ہے، جس کے نتیجے میں جانوروں کی نقل وحرکت محدود تر ہوتی جارہی ہے۔ ہاتھی جیسے بڑے ممالیہ کے صورت حال خاص طور سے مخدوش ہے جو موسم میں تبدیلی کے ساتھ غذا اور پانی کی تلاش اور افزائش نسل کے لیے ایک سے دوسرے علاقے کی طرف ہجرت کرتے ہیں۔
شیر کینیا کا قومی جانور ہے مگر اب ان کی تعداد دو ہزار سے بھی کم رہ گئی ہے جو پانچ عشرے قبل بیس ہزار تھی۔ علاوہ ازیں 90 فی صد شیر اپنے اصل مسکن یا علاقوں سے غائب ہوچکے ہیں۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ آئندہ بیس برسوں میں کینیا میں شیروں کی تعداد اتنی رہ جائے گی جتنی چڑیا گھروں میں ہوتی ہے اور وہ چڑیا گھر جیسے ہی حالات میں رہنے پر مجبور ہوں گے۔ شیروں کو زہر دے کر مارنے کا ہر واقعہ کینیا کو جنگلی حیات کی تصویر کشی کرنے والے معروف فوٹوگرافر پیٹر بیئرڈ کے بہ قول ’اینڈ آگ دی گیم‘ کے قریب لے جارہا ہے۔
دنیا بھر میں زمانۂ قدیم سے جانوروں کے شکار اور دشمنوں کو ہلاک کرنے کے لیے زہر کا استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ مشرقی افریقا میں Acocantheraنامی درخت میں ایسا کیمیائی مرکب پایا جاتا ہے جس کی معمولی مقدار ایک بڑے ممالیہ کے دل کو ناکارہ کردینے کے لیے کافی ہے، یہ زہر صدیوں سے مقبول ہے۔ کچھ عشروں سےحشرات کش زہر بھی جانوروں کی ہلاکت کے لیے استعمال ہونے لگے ہیں۔
اس کا آغاز 1980ء کی دہائی میں ہوا تھا جب براعظم افریقا میں آبادی تیزی سے بڑھنے لگی تھی اور اسی مناسبت سے سَر چھپانے کے لیے چھت اور پیٹ بھرنے کے لیے خوراک کے حصول کی مسابقت میں بھی تیزی آتی گئی۔ زمین داروں اور گلہ بانوں پر انکشاف ہوا کہ حملہ آوروں (شیر، تیندوا، چیتا، جنگلی کتے، گیدڑ ) مردار خوروں (بھیڑیے، گدھ) اور فصلوں کو نقصان پہنچانے والے جانوروں (ہاتھی، کچھ اقسام کے پرندے ) کو ہلاک کرنے کے لیے حشرات کش زہر کا بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ کچھ علاقوں میں لوگ ان ہلاکت خیز مرکبات کو بطخوں اور مرغابیوں وغیرہ کا شکار کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ بطخیں بعدازاں فروخت کردی جاتی ہیں جن کا گوشت خریداروں کی خوراک بنتا ہے۔
زہر دینے کے واقعات کی روک تھام کے لیے قومی سطح پر ایک تحریک اس وقت شروع ہوئی جب مشرقی افریقا کی قدیم ترین نیچرل ہسٹری آرگنائزیشن، نیچر کینیا پر انکشاف ہوا کہ شمالی علاقوں میں کسان شیروں کو حشرات کش زہر کی مدد سے ہلاک کررہے ہیں۔ نیچر کینیا کی برڈ کمیٹی میں شامل ڈیرسی اوگاڈا نے اس مسئلے کی وسعت کا اندازہ کرنے کے لیے رضاکارانہ طور پر سروے ڈیزائن کیے اور ان کی نگرانی کی۔ سروے کرنے کے لیے انھوں نے مارٹن اوڈینو نامی ایک پُرجوش ماہر طیوریات کی خدمات حاصل کیں۔
سروے کے لیے انھوں نے جن مقامات کا انتخاب کیا ان میں سے ایک مغربی کینیا میں جھیل وکٹوریا کے کنارے بنیالا کا علاقہ تھا جہاں دور تک دھان کے کھیت پھیلے ہوئے تھے۔ غیرسرکاری اطلاعات کے مطابق یہاں کاشت کار فیوراڈان 5G نامی حشرات کش زہر کے ذریعے پرندوں کو ہلاک کررہے تھے۔ فیوراڈان 5G ارغوانی رنگ کا دانے دار کیمیائی مرکب ہے جسے امریکا کی ریاست فلاڈلفیا میں قائم ایک کمپنی ایف ایم سی تیار کرتی ہے۔ اس حشرات کُش زہر میں کاربوفوران نامی ایک مرکب بھی شامل ہے۔ یہ اتنا زہریلا ہوتا ہے کہ کینیڈا، یورپی یونین، آسٹریلیا اور چین میں اس کے استعمال پر پابندی ہے یا پھر اس کا استعمال انتہائی محدود ہے۔ امریکا میں خوردنی فصلوں پر اس کے استعمال کی ممانعت ہے، اس کے باوجود کینیا میں اس کی درآمد کی اجازت ہے۔ کینیا میں اس زہر کی درآمد کا اجازت نامہ جوانکو گروپ کے پاس ہے جس کا مرکزی دفتر نیروبی میں واقع ہے۔
بنیالا کے علاقے میں پہلے دورے پر اوڈینو نے دیکھا کہ زرعی ادویہ کی دکانوں پر فیوراڈان 5G عام دستیاب تھا اور کوئی بھی اسے خرید سکتا تھا۔ انھوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ شکاری چاول اور گھونگھوں پر اس زہر کا چھڑکاؤ کرکے انھیں بطخوں اور ایک قسم کے بگلے کا شکار کرنے کے لیے استعمال کررہے تھے جو ان اشیاء کو اپنی خوراک بناتے ہیں۔ جانور ہزاروں کی تعداد میں مر رہے تھے۔ شکاری ، مُردہ پرندے مقامی باشندوں کو فروخت کردیتے تھے، جن کا خیال تھا کہ اگر گوشت کو اچھی طرح پکالیا جائے تو وہ زہریلے اثرات سے تقریباً پاک ہوجاتا ہے۔ پرندوں کے زہریلے گوشت سے بنا سوپ پینے والے کئی اشخاص نے اوڈینو کو بتایا کہ سوپ پینے کے بعد انھیں گھٹنوں میں کمزوری کا احساس ہوتا ہے، یہ علامت ایک ایسے مرکب کی ہے جو دماغی خلیوں کی سرگرمیوں پر اثرانداز ہوسکتا ہے۔ تاہم اب تک اس ضمن میں کوئی تحقیق نہیں کی گئی۔
اوگاڈا نے اپنی حاصل کردہ معلومات ’’والڈ لائف ڈائریکٹ‘‘ کی چیف ایگزیکٹیو آفیسر پاؤلا کاہومبو کو پیش کیں جو کینیا میں قدرتی وسائل کے تحفظ کی سب سے بااثر حامی ہیں، انھیں بھی مختلف علاقوں سے اسی نوع کے واقعات کے بارے میں خبریں مل رہی تھیں۔ کاہومبو نے اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے ایک ٹاسک فورس تشکیل دی۔ اس کا پہلا اجلاس اپریل 2008 میں ہوا۔ اوگاڈا کے مطابق یہ ایک کام یاب اجلاس تھا، کیوں کہ پہلی بار قدرتی وسائل کے تحفظ کے حامی ایک ہی کمرے میں بیٹھ کر اس اہم مسئلے پر تبادلۂ خیال کررہے تھے۔ کاہومبو جانتی تھی کہ سنگین صورت حال کے باوجود حکومت کو اس اس کیمیکل کی درآمد پر پابندی کے لیے راضی کرنا آسان نہیں ہوگا جس پر کینیا کی وسعت پذیر زراعتی صنعت کا دارومدار تھا۔ کاہومبو کہتی ہیں کہ ابھی تک اس کیمیکل کا سستا اور اتنا ہی مؤثرمتبادل دستیاب نہیں ہوسکا تھا۔
زہر کی مدد سے جنگلی حیات کی ہلاکت کو عالمی توجہ 2009ء میں اس وقت حاصل ہوئی جب امریکی ٹیلی ویژن چینل سی بی ایس کے پروگرام میں کینیا میں فیوراڈان 5G کے ذریعے شیروں کی ہلاکت اور اس کیمیائی مرکب کی دست یابی پر ایک جامع رپورٹ نشر کی گئی۔ بعدازاں فیوراڈان 5Gبنانے والی کمپنی نے کینیا میں اپنی مصنوعہ مارکیٹ سے اٹھالی اور عوام الناس سے اس زہریلے مرکب کی بوتلیں واپس خریدنے کی اسکیم بھی چلائی۔ یہ حکمت عملی ایک حد تک کام یاب رہی کیوںکہ 2010ء کے بعد سے زرعی ادویہ کی دکانوں پر فیوراڈان 5G فروخت نہیں ہوئی، لیکن کاربوفیوران اب بھی عام دست یاب ہے۔
کبھی کبھار فیوراڈان افریقا ہی کے بعض علاقوں سے کینیا تک پہنچنے میں کام یاب ہوجاتی ہے۔ تاہم فیوراڈان کی بندش کے بعد اب مارکیٹ میں نقلی فیوراڈان موجود ہے، علاوہ ازیںکاربوفیوران سے بنی چینی اور بھارتی مصنوعات بھی بیچی جارہی ہیں۔ ایف ایم سی کی تیارکردہ گلابی رنگ کی ایک اور مصنوعہ جو ’’مارشل‘‘ کہلاتی ہے، بھی حملہ آور جانوروں کو ہلاک کرنے کے لیے مُردہ جانوروں پر چھڑکی جارہی ہے۔ مارشل میں کاربوسلفان نامی مرکب شامل ہے جو کم ارتکاز پر کاربوفیوران میں ٹوٹ جاتا ہے۔
اس کے باوجود یہ بے حد زہریلا ہوتا ہے۔ کاہومبو، اوڈینو، اوگاڈا اور دوسروں کی کوششوں کے باوجود کینیا کی حکومت نے ہنوز کاربوفیوران پر پابندی عائد نہیں کی۔ صدر اہورو کینیاٹا کی پہلی ترجیح فوڈ سیکیورٹی ہے اور کینیا کی مسلسل بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر اس زہریلے مرکب کی درآمد پر پابندی مشکل دکھائی دیتی ہے۔ آبادی میں اضافے کا مطلب ہے خوراک کی بڑھتی ہوئی طلب، اور اس طلب کو پورا کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ اراضی کو زیرکاشت لانا ناگزیر ہے، اور پھر اسی مناسبت نباتات اور حشرات کش زہر کا استعمال بھی وسیع ہوتا چلا جائے گا، چناں چہ ان پر پابندی کا امکان بہ ظاہر دور دور تک نظر نہیں آرہا۔
ایف ایم سی کمپنی کی ترجمان کوری اینے ناٹولی نے ای میل کے جواب میں لکھا کہ پہلی بار ہم نے ’’مارشل‘‘ کے غلط استعمال کے بارے میں سنا ہے، کمپنی اس دعوے کی تحقیقات کررہی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایف ایم سی کینیا میں فیورڈان کی دست یابی کے ضمن میں کوئی ذمے داری قبول نہیں کرتی۔
کینیا کی مارکیٹ کے فیوراڈان کے اٹھائے جانے کے بعد بھی حشرات کش زہر کا استعمال اسی طرح کیا جارہا تھا۔ دسمبر 2015ء میں یہ مسئلہ ایک بار پھر اس وقت اجاگر ہوا جب ایک شیر اور دو شیرنیوں پر مشتمل گروپ موت کا شکار ہوا۔ کینیا میں یہ شہر بے حد مقبول تھے اور ’’ مارش پرائڈ‘‘ کہلاتے تھے۔ مقبولیت کے پیش نظر انھیں بی بی سی ٹیلی وژن کی سیریز سیریز ’’ بگ کیٹ ڈائری‘‘ میں بھی پیش کیا گیا تھا۔ دسمبر 2015ء کے ابتدائی ہفتے میں ان درندوں نے ماسائی مارا کی حدود میں کئی مویشی ہلاک کردیے۔
جواباً گلہ بانوں نے ایک جانور کی لاش پر زہر کا چھڑکاؤ کردیا۔ نتیجتاً ایک شیرنی موقع ہی پر ہلاک ہوگئی، دوسری جو زہرخوانی کے باعث بے حد لاغر ہوگئی تھی اسے لگڑ بگڑوں نے شکار کرلیا۔ زہریلے اثرات کے سبب نقاہت اور کمزوری کا شکار ہونے والے شیر کو بھینسوں نے روند ڈالا۔ معذوری کا شکار ہوجانے والے شیر کو اذیت سے نجات دلانے کے لیے کینیا وائلڈ سروس کے عملے کو اسے زہر دینا پڑا۔ شیروں کے پوسٹ مارٹم سے ان کے جسم میں کاربوسلفان کی موجودگی کا انکشاف ہوا۔
جنگلی حیات کے لیے محفوظ قرار دیے گئے علاقوں کی سرحدیں جانوروں کے لیے خطرناک بن چکی ہیں تاہم بڑے اور زیادہ متحرک رہنے والے جانوروں کے لیے مارا ریجن کا مشرقی حصہ سب سے زیادہ خطرناک ہے۔ محفوظ علاقے کے اطراف گلہ بانی زوروں پر ہے، اور مویشیوں کے ریوڑ اور باڑوں کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے، اس کے نتیجے میں کھلے میدان سکڑتے جارہے ہیں، چناں چہ ماسائی کے گڈریے اور گلہ بان بالخصوص خشک سالی کے دوران مویشیوں کو چرانے کے لیے محفوظ علاقے کی حدود میں لے آتے ہیں۔ حتیٰ کہ ہزاروں گائے بھینسیں شیروں کے مسکن میں چلتی پھرتی نظر آنے لگتی ہیں۔ شیر کو دھیمی چال چلنے اور موٹ عقل والا شکار زیادہ پسند ہوتا ہے، چناں چہ وہ مویشیوں پر حملہ آور ہوجاتا ہے۔ ایسے ملک میں جہاں بندوقوں کا قانونی طور پر حصول مشکل ہے، وہاں زہر اور زہریلے تیر ہی گلہ بانوں کا ہتھیار ٹھہرتے ہیں جن سے شیروں اور دوسرے حملہ آور جانوروں کا شکار کیا جاتا ہے۔
اس حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے کہ شکار کے اس رجحان، جانوروں کے خلاف تشدد کو ختم یا محدود کرنا مقامی لوگوں کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں، کچھ غیرسرکاری تنظیموں (این جی اوز) نے ایم نئی حکمت عملی اپنائی ہے جس میں جانوروں کے تحفظ کی کوششوں میں مقامی آبادی کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔
کچھ معروف این جی اوز اسی طرح کی حکمت عملیوں سے کام لے رہی ہیں۔ ان حکمت عملیوں میں زیبرا اور اسی جسامت کے جانوروں کو دستی آہنی پھندوں سے بچانے کے لیے گشت کرنا، مویشیوں کی ہلاکت کی صورت میں مالکان کے نقصان کی تلافی کرنا، اور رات میں جانوروں کو بند کرنے کے لیے مضبوط چوبی اور جالی کی باڑ لگا ہوا احاطہ تعمیر کرنا ہے۔ 2010ء سے اینے کینٹ ٹیلر فنڈ نامی این جی او نے مارا ریجن میں 800 احاطے تعمیر کیے ہیں۔ اس کے نتیجے میں مویشیوں پر درندوں کے حملوں میں کمی آئی ہے، بہ الفاظ دیگر اس علاقے میں شیروں کو زہر دینے کا جواز قریب قریب ختم ہوگیا ہے۔
این جی اوز کی سب سے کام یاب حکمت عملی مقامی رہائشیوں کو بہ طور رینجرز، تصفیہ کار، اور جنگلی حیات کا محافظ بھرتی کرنا ہے۔ بگ لائف نامی این جی او کے شریک بانی اور افریقا میں ڈائریکٹر آپریشنز رچرڈ بونہم کہتے ہیں کہ جنگلی حیات کی تنظیم کاری دراصل لوگوں کی تنظیم کاری ہے۔
جنگلی حیات کو زہر کا شکار ہونے سے بچانے میں ناکامی کا ذمہ دار بہ آسانی کینیا وائلڈ لائف سروس کو ٹھہرایا جاسکتا ہے، اور کچھ لوگ اسے موردالزام ٹھہراتے بھی ہیں۔ میں نے جن علاقوں کا بھی سفر کیا وہاں نااہلی کے واقعات سُننے کو ملے؛ زہر کا شکار ہونے والے جانوروں کے نمونے حاصل نہیں کیے گیے، نمونے ضایع ہوگئے، نمونوں کی شناخت میں غلطیاں کی گئیں اور بے پروائی برتی گئی، نمونوں کی جانچ نہیں کی گئی، اور نہ ہی کبھی لیبارٹری سے جانچ کے نتائج موصول ہوپائے۔ زخمی جانوروں کا بروقت اور مناسب طور پر علاج نہ ہونے کی شکایات بھی موجود تھیں جو صحت یاب ہوسکتے تھے مگر موت کا شکار ہوگئے، علاوہ ازیں جائے وقوعہ پر ناقص تحقیقات، مربوط اور جامع معلومات کی کمی جیسے مسائل بھی موجود تھے جن کی بنیاد پر پالیسی اور طریقہ ہائے کار وضع کیے جاتے۔
تاہم مارا کنزروینسی کے سربراہ برائن ہیتھ کے مطابق یہ بھی حقیقت ہے کہ کینیا وائلڈ لائف سروس کو کئی بڑے مسائل کا سامنا ہے جس میں سب سے اہم فنڈز کی قلت ہے۔ علاوہ ازیں کیتھ کہتے ہیں کہ جنگلی حیات کا تحفظ حکومتی ترجیحات میں شامل نہیں، اسی لیے کے ڈبلیو ایس کے مقابلے میں ٹوارزم بورڈ کو زیادہ فنڈز دیے جاتے ہیں، حالاں کہ جنگلی حیاتیات اور خوب صورتی تفریحی مقامات جن کے تحفظ اور دیکھ بھال کی ذمے داری کے ڈبلیو ایس کے سپرد ہے، کے بغیر سیاحتی صنعت بیٹھ جائے گی۔
ملک کے بیشتر نیشنل پارکوں کو عملے کی کمی کا سامنا ہے اور دست یاب اہل کاروں کی اکثریت بھی مناسب تربیت یافتہ نہیں۔ ویٹرنری ڈاکٹر کام کے بوجھ سے لدے ہوتے ہیں، کیوں کہ قانون کے تحت انھیں انسانوں اور جانوروں کے مابین تصادم میں موخرالذکر کو پہنچنے والے ہر چھوٹے بڑے زخم کا علاج کرنا ہوتا ہے جس کی وجہ سے زہر دینے کے واقعات کے نتیجے میں جانوروں کی ہلاکتوں پر ضروری کارروائی کرنے میں تاخیر ہوجاتی ہے۔ کے ڈبلیو ایس کے اہل کار فرانسس گا کویا کہتے ہیں کہ یہ بڑی مایوس کن صورت حال ہے، بنیادی وسائل دستیاب نہیں ہیں، گاڑیاں بہت کم ہیں جن کے لیے اکثر اوقات ایندھن بھی مہیا نہیں ہوتا۔
اس قومی معمے کا ایک اور نظرانداز کردہ پہلو پولیس اور ججوں کا کردار ہے۔ ’مارش پرائڈ‘ کو زہر دینے کے الزام میں مارا کنزروینسی کے رینجرز نے دو مشتبہ افراد پکڑے تھے، مگر کوئی کیس درج کیے اور مقدمہ چلے بغیر ان کی ضمانت ہوگئی۔ اگرچہ ماضی کی نسبت اس نوع کے معاملات میں قانونی اور عدالتی کارروائی کی شرح بڑھ گئی ہے تاہم بیشتر ملزمان باعزت بری ہوجاتے ہیں۔ اسی لیے جنگلی جانوروں کو زہر دینے کے واقعات اسی طرح جاری ہیں۔ کاربوفیوران اگرچہ مقبول ہے تاہم اس کے علاوہ گھریلو تیارکردہ روایتی زہریلے مرکبات بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ رواں سال مسائی مارا میں ایک ہی واقعے میں چالیس کے لگ بھگ کرگس ہلاک ہوگے تھے۔ مشرقی ساوو میں ہاتھیوں کے شکاری زہریلے تیروں سے کام لیتے ہیں۔ گذشتہ برس پندرہ ہاتھی زہریلے تیروں کا شکار ہوئے تھے۔
کچلہ کے پودے سے حاصل کردہ زہریلا مرکب تنزانیہ سے کینیا میں موٹرسائیکل پر اسمگل کرنا بہت آسان ہے اور پھولوں کے کھیتوں( فلاور فارم) پر کام کرنے والا کوئی بھی کاشت کار یا ملازم نیا حشرات کش زہر مقامی بلیک مارکیٹ کو مہیا کرسکتا ہے۔ زہر تو زہر۔۔۔۔ حد تو یہ ہے کہ سیمنٹ بھی جنگلی حیات کو ہلاک کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ ایک ایسے ملک میں یہ کسی ستم ظریفی سے کم نہیں جہاں تعمیراتی سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ نیروبی کے قریب مجھے سمبا سیمنٹ کا بل بورڈ نظر آیا، یہ سیمنٹ مقامی طور پر تیار کی جاتی ہے۔ تشہیری بورڈ پر ببر شیر کا چہرہ دکھایا گیا تھا اور اس کے اوپر ’’کنگ آف دی کنکریٹ جنگل‘‘ کے الفاظ چھپے ہوئے تھے۔ شیروں کے تحفظ کے لیے اگر کچھ نہ کیا گیا تو پھر یہ جانور صرف تشہیری بورڈز ہی پر رہ جائے گا۔
ایک روز اینے کینٹ ٹیلر فنڈ کی شکار کی روک تھام کی گشتی ٹیم مجھے اپنے ہمراہ نیاکویری کے جنگل میں لے گئی۔ یہ جنگل ماسائی مارا کی حدود سے باہر سے باہر پہاڑی ڈھلوان پر واقع ہے۔ گشتی ٹیم کے نوجوان سربراہ ایلیس کمانڈے نے مجھے وسیع و عریض قطعہ ارض دکھایا جہاں جا بہ جا درختوں کے تنے اور شاخیں بکھری ہوئی تھیں۔ کمانڈے نے بتایا کہ یہ علاقہ کچھ عرصہ قبل تک ہاتھیوں کی نرسری کے طور پر استعمال ہورہا تھا، جہاں دو سو ہتھنیاں بہ یک وقت بچے جنتی تھیں۔
یہ علاقہ کچھ عرصہ قبل تک گھنے جنگل کا منظر پیش کرتا تھا مگر اب اس پر سے درختوں کا صفایا ہوچکا تھا۔ اس قطعۂ ارض کا رقبہ فٹبال کے چار میدانوں کے مساوی تو یقیناً تھا۔ کمانڈے نے بتایا کہ جنگل میں درختوں سے خالی ایسے قطعہ ارض کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اور درختوں کے اس قتل عام کے پس پردہ کوئلے کی صنعت کے کرتا دھرتا ہیں۔ کمانڈے نے اداس لہجے میں مجھ سے کہا کہ پانچ سال کے بعد یہاں اس جنگل کے بجائے انسانی آبادیاں، فصلیں، مویشی اور باڑے ہوں گے۔ اس کے نتیجے میں یہاں سے ہاتھی، شیر، زرافے، لگڑبھگڑ اور دوسرے جانور ختم ہوجائیں گے، جو آج مارا ٹرائی اینگل اور اس ڈھلوانی جنگل کے درمیان آزادانہ نقل و حرکت کرتے ہیں۔
کینیا کے پاس اب بھی جنگلی حیات کے مساکن کو بچانے کا وقت ہے۔ اگر حکومت نے سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مؤثر اقدامات نہ کیے تو ایک وقت ایسا آئے گا جب نباتات اور حشرات کش زہر کسی تشویش کا باعث نہیں رہیں گے۔۔۔۔۔۔۔ ظاہر ہے جب جنگلی جانور ہی باقی نہیں رہیں گے تو زہر کسے دیا جائے گا!
The post انسانوں کی حیوانیت کے ہاتھوں مٹتے جانور appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2QohqVR
ایک جعل ساز، جس نے ایفل ٹاور بیچ ڈالا
تاریخ کے چند صفحات وکٹر لسٹنگ نے بھی اپنے نام کیے ہیں، مگر اس کا تذکرہ جعل سازوں اور دھوکے بازوں کی فہرست میں ملے گا۔
اس کے ’کارنامے‘ پڑھ کر آپ دنگ رہ جائیں گے۔ اصل نام تو اس کا رابرٹ ملر تھا، مگر دھوکا دہی کی وارداتوں کے لیے اس نے مختلف نام اپنائے اور سوانگ بھرے۔ ان میں وکٹر لسٹنگ وہ نام ہے جو زیادہ مشہور ہے۔
اس کی تاریخِ پیدائش 1890ء اور وطن چیکو سلواکیا تھا۔ کہتے ہیں وہ ذہین اور پُراعتماد تھا اور بَروقت فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ متعدد زبانوں پر عبور رکھنا اس کی ایک زبردست قابلیت تھی۔ لوگ اس کی لچھے دار باتوں میں آسانی سے آجاتے۔ وہ اپنی جادو بیانی سے ان کا بھروسا اور مان حاصل کرنے کے بعد موقع پاتے ہی انہیں نقدی اور قیمتی اشیا سے محروم کردیتا۔ اس دھوکے باز نے تو مشہورِ زمانہ ایفل ٹاور تک بیچ دیا تھا۔
سچ ہے لالچ بُری بلا ہے، مگر راتوں رات امیر بننے کی خواہش میں انسان اچھے اور بُرے کی تمیز کھو بیٹھتا ہے۔ رابرٹ نے اسی انسانی کم زوری کا فائدہ اٹھایا اور خوب مال اکٹھا کیا۔ اس کا پہلا ’منظم کارنامہ‘ کرنسی نوٹ چھاپنے والی مشین تھی۔
یہ قصّہ کچھ یوں ہے کہ وکٹر لسٹنگ (جعلی نام) کے شیطانی ذہن نے ایک ایسی مشین تیار کی جس سے کرنسی نوٹ کی نقل حاصل کی جاسکتی تھی۔ یعنی اس میں مخصوص طریقے سے کرنسی نوٹ داخل کر کے دگنی رقم ہاتھ لگ سکتی تھی۔ یوں کوئی بھی گویا راتوں رات امیر بن سکتا تھا۔ اس نے چند لوگوں کو اس ’ایجاد‘ سے آگاہ کیا اور مشین کی قیمت تیس ہزار ڈالر بتائی۔ یہی نہیں بلکہ خواہش مندوں کے سامنے اس کا مشین کا عملی مظاہرہ کیا۔ پہلی بار مخصوص طریقۂ استعمال سے مشین نے سو ڈالر اگل دیے۔ وکٹر نے بتایا کہ اگلی بار یہ اس سے دگنی رقم دے گی اور اس نے ایسا کر کے دکھایا بھی۔
وہ ایک کرنسی نوٹ مخصوص حصّے سے داخل کرتا اور دوسرے سے دگنی رقم باہر نکلنے لگتی۔ چند گھنٹوں کے وقفے کے بعد دوبارہ مشین استعمال کی جاتی تو مزید دو سو ڈالر نہایت آسانی سے ہاتھ آجاتے۔ جانچ کروانے پر وہ تمام کرنسی نوٹ اصلی ثابت ہوئے۔ یوں لوگ لالچ میں آگئے، مگر کسی کو یہ معلوم نہ تھا کہ اس مشین سے دو مرتبہ ہی استفادہ کیا جا سکتا ہے اور تین سو ڈالر اگلنے کے بعد یہ کسی کام کی نہیں رہتی۔ یوں بھی سب کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اس مشین سے نکلنے والے کرنسی نوٹوں نے ختم کردی تھی۔ وکٹر لسٹنگ نے اپنی چکنی چپڑی باتوں سے ایسا الجھایا کہ کسی نے مشین کے بارے میں مزید کوئی سوال نہیں کیا اور اسے خریدنے کے چکر میں پڑ گئے۔ دھوکے باز وکٹر اپنے مقصد میں کام یاب رہا اور تیس ہزار ڈالر کے عوض مشین فروخت کرتا رہا۔ دراصل اس مشین کے مخصوص خانے میں اصل کرنسی نوٹ خود اس دھوکے باز نے رکھے تھے تاکہ لوگوں کا بھروسا حاصل کر سکے۔ جب مشین کو مخصوص طریقے سے استعمال کیا جاتا تو اس میں موجود کرنسی نوٹ باہر نکل آتے۔
یہ دو مرتبہ تو ممکن ہوتا، مگر تیسری بار صارف کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا، کیوں کہ نوٹوں کا خانہ خالی ہو جاتا تھا۔ تب ان پر اس کی حقیقت بھی کُھل جاتی، مگر اس وقت تک یہ جعل ساز ایک دوسرے شہر کے لیے روانہ ہوچکا تھا۔ اس طرح مشین کی ادا کردہ قیمت تک لوگوں کی جیب میں نہیں آسکی اور وہ اپنے لُٹنے کا ماتم کرتے رہ گئے۔ تیسری مرتبہ مشین میں سے سادہ کاغذ برآمد ہوتا اور صارف جھنجھلاہٹ کے عالم میں پھر کوشش کرتا، اس کی متعدد کوششوں کا ایک ہی نتیجہ نکلتا۔ یعنی ہر کوشش میں کورا کاغذ ہی ہاتھ لگتا اور تب وہ یہ ماننے پر مجبور ہوتے کہ انہیں دھوکا دیا گیا ہے۔ اس وقت تک وکٹر لسٹنگ ان کی پہنچ سے بہت دور نکل چکا ہوتا تھا۔ وہ فراڈ کرنے کے بعد کسی دوسرے شہر منتقل ہوجاتا تھا۔
اس دھوکے باز کا اصل نام رابرٹ تھا۔ اساتذہ اسے ایک ذہین طالبِ علم کے طور پر شناخت کرتے تھے۔ نت نئی زبانیں سیکھنے کا شوق تھا جس کا جرم کی دنیا میں اس نے خوب فائدہ اٹھایا۔ اسے فرانسیسی، چیک، انگریزی، جرمن، اطالوی اور دیگر بولیوں پر عبور حاصل تھا۔ 19 برس کی عمر میں رابرٹ نے تعلیم کا سلسلہ منقطع کردیا اور وقت گزاری کے لیے جوا کھیلنے لگا۔ اسی زمانے میں اس پر دولت سمیٹنے کا جنون سوار ہوا اور اس نے دھوکے بازی اور جعل سازی کا راستہ اپنایا۔ رابرٹ نے سب سے پہلے ان تاجروں کو لوٹنا شروع کیا جو سمندری راستے امریکا اور فرانس آتے جاتے تھے۔ کبھی وہ میوزک پروڈیوسر بن کر ان سے ہاتھ کر جاتا تو کہیں نواب وکٹر کا روپ دھار کر اپنے جال میں پھنسا لیتا۔
وہ سرمایہ دار بن کر اپنے کاروباری منصوبے تاجروں کے سامنے رکھتا اور ملاقاتوں کے دوران ان کا اعتبار اور بھروسا حاصل کرلیتا اور پھر ان کے ساتھ ہاتھ کرجاتا۔ یوں تاجر قیمتی اشیا اور اپنی جمع پونجی سے محروم ہوجاتے۔ ایسی چند کارروائیوں کے بعد اس نے زبردست منصوبہ بندی کے ساتھ مالیاتی ادارہ سے بڑا فراڈ کیا۔ یہ1922 کی بات ہے جب فرانس کا ایک بینک اس کی جعل سازی کا نشانہ بنا۔ یہ پراپرٹی اور بانڈز سے متعلق فراڈ تھا جس پر پولیس اور خفیہ ادارے متحرک ہوگئے، لیکن یہ دھوکے باز اب امریکا میں تھا۔ اس نے پیرس اور امریکا میں معمولی فراڈ اور جعل سازیوں کے ذریعے خاصی رقم اور جائیداد بنا لی تھی اور اب کوئی بڑا ہاتھ مارنا چاہتا تھا۔ امریکا میں قیام کے دوران وہ چھوٹے موٹے فراڈ کرتا رہا۔ کہتے ہیں وہ صرف امریکا اور فرانس ہی نہیں بلکہ متعدد یورپی ممالک میں بھی مختلف معمولی نوعیت کے فراڈ کرتا رہا اور اس عرصے میں درجنوں بار گرفتار ہوا، لیکن زیادہ دن سلاخوں کے پیچھے نہیں رہا۔
یہ سن کر آپ حیران ہوں گے کہ رابرٹ نے مشہورِزمانہ ایفل ٹاور بھی بیچ دیا تھا۔ فرانس کی یہ تاریخی یادگار اس ملک کی ایک پہچان بھی ہے۔ لوہے کا یہ مینار فرانس کے شہر پیرس میں دریائے سین کے کنارے واقع ہے۔ 1889ء میں انقلابِ فرانس کا صد سالہ جشن مناتے ہوئے اس مینار کی رونمائی کی گئی تھی اور ارادہ تھا کہ دو دہائی بعد اسے منہدم کردیا جائے گا، لیکن بعد میں انتظامیہ نے یہ ارادہ ترک کر دیا تھا۔ ایفل ٹاور کی تعمیر میں لوہا اور اسٹیل استعمال کیا گیا ہے جن کا مجموعی وزن 7,300 ٹن ہے۔ یہ مینار جہاں ایک تاریخی حوالہ رکھتا تھا اور اب شہر کی ایک شناخت بھی تھا، وہیں اسکریپ کا کاروبار کرنے والوں کے لیے اس کی فروخت کا اعلان بھی قابلِ ذکر بات تھی۔ شہر کے اہم کباڑیوں تک ایک سرکاری کاغذ پر دعوت پہنچی کہ انتظامیہ ایفل ٹاور کو اسکریپ کی شکل میں فروخت کرنا چاہتی ہے، دل چسپی رکھنے والے رابطہ کریں۔ کسی کو گمان تک نہ گزرا کہ یہ سب فراڈ ہے۔ اس کے پیچھے رابرٹ کا شیطانی دماغ کام کر رہا تھا جو 1925ء میں امریکا سے فرانس آیا تھا اور اس بار پیرس اس کا ٹھکانہ تھا۔
وہ موسمِ بہار کی ایک صبح تھی جب اخبار کا مطالعہ کرتے ہوئے رابرٹ کی نظر ایک مضمون پر پڑی جس میں ایفل ٹاور کی وجہ سے شہر میں انتظامی مسائل کا ذکر تھا۔ یہ بھی لکھا تھا کہ ٹاور کی دیکھ بھال اور تزئین و آرائش انتظامیہ کے لیے دردِ سَر بنتی جارہی ہے۔ یہ مضمون پڑھ کر رابرٹ کا شیطانی ذہن متحرک ہو گیا۔ اس نے ایک منصوبہ ترتیب دیا اور اس کے لیے سرکاری عہدے دار کا روپ دھار لیا۔ اس نے دھاتوں اور خام لوہے کی خریدوفروخت سے منسلک چھے بڑے تاجروں کے پتے حاصل کیے اور ایک جعلی سرکاری لیٹر پر دعوت نامہ بھیجا کہ انتظامیہ ایفل ٹاور کو اسکریپ کرنا چاہتی ہے، اگر وہ اس میں دل چسپی رکھتے ہیں تو رابطہ کریں۔ یہ ہدایت بھی کی کہ انتظامیہ اس معاملے کو خفیہ رکھنا چاہتی ہے اور اس بات کا خیال رکھا جائے۔ اسے حوصلہ افزا جواب موصول ہوا۔ رابرٹ نے خود کو ایک محکمے کا ڈپٹی ڈائریکٹر ظاہر کرتے ہوئے اعلیٰ درجے کے ہوٹل میں خواہش مند کاروباری شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔
وہ سرکاری عہدے دار کی حیثیت سے انہیں بتاتا کہ انتظامیہ ایفل ٹاور کی مرمت اور اس کی تزئین و آرائش کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتی اور اسے فروخت کرنا چاہتی ہے، لیکن عوام کی جانب سے کسی بھی ردعمل سے بچنے کے لیے فی الوقت اس معاملے کو خفیہ رکھنا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ معاہدے کے مطابق جب مالک ٹاور کو اکھاڑے گا تو انتظامیہ کی جانب سے اعلان کیا جائے گا کہ اس کی مرمت اور جگہ کی تبدیلی عمل میں لائی جارہی ہے۔ یوں تاجر کو اسکریپ لے جانے پر کسی قسم کی مشکل پیش نہیں آئے گی۔ اس حوالے سے باقاعدہ تحریری معاہدہ کیا جائے گا۔ آخر اس سودے پر اس نے ایک تاجر کو رضامند کر ہی لیا۔ ہر طرح سے اطمینان کر لینے کے بعد تاجر نے سرکاری کاغذات پر ایفل ٹاور کی خریداری کے لیے دستخط کردیا اور بھاری رقم رابرٹ کے حوالے کردی جو ٹرین کے ذریعے آسٹریا روانہ ہوگیا۔ بعد میں اس تاجر پر کھلا کہ وہ بیوقوف بن گیا ہے اور وہ دعوت نامہ ہی نہیں معاہدے کی تمام دستاویز جعلی ہیں۔
وہ مقامی انتظامیہ اور پولیس سے رابطہ کرنے میں ہچکچا رہا تھا۔ اسے اپنی کاروباری ساکھ متاثر ہونے کا ڈر تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ یہ راز کھلا تو اس کے معاصر بزنس مین اس پر ہنسیں گے۔ تاجر نے کھوج لگایا تو انکشاف ہوا کہ خفیہ یا اعلانیہ کسی بھی طور انتظامیہ ایفل ٹاور کی فروخت کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی تھی اور کبھی ایسی کوئی تجویز تک انتظامیہ میں زیرِغور نہیں رہی۔ ادھر رابرٹ فرانس کے تمام بڑے اخبارات کا مطالعہ کررہا تھا۔ چند ماہ تک اس کے فراڈ سے متعلق کوئی بھی خبر کسی اخبار کی زینت نہ بنی تو اس نے دوبارہ فرانس جانے کا فیصلہ کیا۔ اس کا ارادہ تھا کہ ایک مرتبہ پھر ایفل ٹاور ’فروخت‘ کرے اور اسی طرز پر کاروباری شخصیات سے رابطہ کرے۔ اس نے پیرس پہنچ کر یہی کیا، مگر اس بار قسمت اس کے ساتھ نہ تھی اور ایک تاجر نے شک ہونے پر اس معاملے کو پولیس کے سامنے رکھ دیا۔ پولیس نے فوری طور پر انتظامیہ سے رابطہ کیا اور یوں فراڈ کا پردہ چاک ہو گیا، لیکن رابرٹ پولیس کے ہاتھ نہ آیا اور امریکا پہنچ گیا۔
1930ء میں امریکا نے بدترین کساد بازاری دیکھی۔ ان حالات میں رابرٹ جس نے جعلی نام وکٹر لسٹنگ اپنا لیا تھا، ایک نئے فراڈ کا منصوبہ ترتیب دیا۔ تاہم اس بار وہ تنہا نہیں تھا بلکہ مجرمانہ ذہنیت کے حامل دو کاروباری افراد اس کے ساتھ تھے۔ اس سے قبل بھی وکٹر لسٹنگ بدنامِ زمانہ اور جرائم پیشہ گروہوں کے ساتھ مل کر بڑے فراڈ کرچکا تھا۔ ان میں لوگوں کو کسی اسکیم کے ذریعے راتوں رات امیر بنانے کے ساتھ دوسرے بڑے مالیاتی فراڈ شامل ہیں۔
ولیم واٹس اور ٹام شا نامی دوا ساز اور کیماگر کے ساتھ مل کر اس نے جعلی کرنسی چھاپنے اور اسے ملک بھر میں پھیلانے کا کام شروع کردیا جو پانچ سال تک جاری رہا۔ 1935ء میں اس جرم کا پردہ چاک ہوگیا اور پولیس نے اسے گرفتار کرلیا۔ امریکا میں ٹرائل سے چند روز قبل اس ملزم نے فرار کا منصوبہ بنایا اور کسی طرح بھاگنے میں کام یاب ہوگیا، مگر27 روز بعد ہی دوبارہ پکڑا گیا۔ اسے15 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ مارچ 1947ء میں دورانِ قید بیماری کی وجہ سے اس کی موت واقع ہوگئی۔
The post ایک جعل ساز، جس نے ایفل ٹاور بیچ ڈالا appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Qiu5t7
May or later: Rocket Lab may launch a small probe to Venus
By Unknown Author from NYT Science https://ift.tt/OPbFfny
-
پشاور: وفاقی وزیر برائے مذہبی امور نورالحق قادری کا کہنا ہے کہ صاحب استطاعت لوگ ہی حج کرتے ہیں اور جس کے پاس پیسے ہوں وہ حج کے لیے جائے گا۔...
-
In an interview, the White House press secretary says Donald Trump had divine support. from BBC News - World https://bbc.in/2Bm9a3B
-
Consumer Reports reveals its Top 10 picks for the best vehicles of 2019. It's an influential annual list that serves as a guide for many...