سفر تو کئی قسم کے ہوتے ہیں لیکن ہمسفر صرف دو قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ جن کے ساتھ ہم صرف سفر کرنا یا چلنا چاہتے ہیں اور دوسرے وہ جن کے ساتھ ہم ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر چلنا چاہتے ہیں۔ لیکن انسان عجیب مٹی سے بنا ہے جس کا ہاتھ نہیں پکڑنا ہوتا اس کا ہاتھ جھٹ سے پکڑ لیتا ہے اور جس کا ہاتھ پکڑ لینے کی شدید خواہش ہوتی ہے اس ہی کا ہاتھ پکڑنا اسے دنیا کا مشکل ترین کام لگتا ہے۔ مانو جیسے کوئی پہاڑ سر کرنا ہو، کسی اکھاڑے میں بڑے سے پہلوان کو شکست دینی ہو۔ اکثر اوقات تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ دوسرا ہاتھ خود پکڑ میں آنا چاہتا ہے مگر پکڑنے والے کی ہمت بھی تو بندھے۔ کئی بار تو چلتے چلتے ہاتھ ہاتھ سے ٹکرا جاتے ہیں لیکن ہاتھ پکڑ لینے کی ہمت کبھی کبھی ہی آتی ہے اور یہ جو ساتھ چلتے ہوئے ہاتھ سے ہاتھ چھو جاتا ہے نہ اس سے بھی جسم میں تند و تیز لہریں دوڑ کر دماغ میں ایسا دھماکا کرتی ہیں کہ کچھ سمجھ بوجھ ہی نہیں رہتی اور پھر وہی پہاڑ جیسا انسان مٹی کا ایک ڈھیلا بن جاتا ہے۔ بھر بھرا سا ڈھیلا، جو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنے کیلئے بھی تیز ہوا کا متلاشی ہوتا ہے۔ یعنی یہ ڈھیلے نما انسان اب ہاتھ پکڑ لینے کیلئے بھی کسی موقع کی تلاش میں ہوتا ہے کہ اب کہیں پر کوئی اونچائی آئے یا کوئی ڈھلوان آئے تو میں ہاتھ بڑھاوں یا میں ہاتھ پکڑوں یا پھر ایسے ہی اور کئی بہانے وغیرہ وغیرہ۔
ہمارے جیسے معاشرے میں جہاں شرم عورت کا گہنا ہو اور مرد کی مردانگی صرف اس کی عزت اور غیرت میں ہی چھپی بیٹھی ہو وہاں سرعام ہاتھ کو پکڑ لینا کافی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ حتی کے بیچارے میاں بیوی بھی اگر ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر کہیں جا رہے ہوں تو لوگ ایسے دیکھیں گے جیسے انہوں نے کوئی نہایت ہی گھنائونا کام کرلیا ہو۔ یہ تو کہانی پھر سرعام بازار، شاپنگ مالز اور پارک میں آنے والوں کی ہے ہمارے ہاں تو خیر میاں بیوی گھر میں بھی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پکڑ سکتے،ہاتھ تو دور بیچارے ایک ساتھ بیٹھ بھی نہیں سکتے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے سوائے منگنی کی رسم کے شادی بیاہ میں بھی ایسی کوئی رسم نہیں جس میں دلہا دلہن کا ہاتھ پکڑلے، کہا جاتاہے کہ جس انگلی میں انگوٹھی پہنائی جاتی ہے اس کا تعلق سیدھا دل سے ہوتا ہے انگوٹھی دل والی انگلی میں پہنا دو مگر ہاتھ نہ پکڑنا کہیں دل ہی نہ بند ہوجائے۔ اللہ معاف کرے میں بھی کیسی بیہودہ باتیں کرنے لگاہوں منگنی اور شادیوں پر کون ہاتھ پکڑتا ہے۔
صرف جوڑوں یا میاں بیوی ہی کو نہیں بلکہ بہن بھائی کو بھی ہاتھ پکڑ لینا چاہئے انہیں بھی احساس ہو کہ بہن کا ہاتھ پکڑتے ہی انسان کا بچپنا جاگ جاتاہے، ایک اچھا دوست اور محافظ ہونے کے جذبات امڈ آتے ہیں۔ بہن کو بھی ایک ڈھال ملے،اسے بھی احساس ہو کہ وہ یہ ہاتھ پکڑ کر کہیں بھی جاسکتی ہے اس کی مکمل نہ صحیح کچھ تو تلاش کم ہوگی۔ مجھے نہیں یاد میں نے اپنی بہن کا ہاتھ کب پکڑا تھا شاید سڑک پار کرتے ہوئے یا شاید مجھے بلکل نہیں یاد اور رہی بات بھائیوں کی تو ہمارے ہاں دوستوں،مہمانوں، رشتہ داروں سے ہاتھ ملانے کا رواج ہے مگر اپنے ہی گھر میں اپنے ہی بھائیوں سے ہاتھ ملانا بہت کم دیکھنے کو ملتاہے۔ بحثیت مسلم یہ ہم پر اللہ کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں ہاتھ ملا کر سلام کرنے جیسا تحفہ عطا کیا ہے۔ دنیا کے دوسرے کئی ممالک میں یوں ہاتھ ملاناکسی حدتک غیر اخلاقی سمجھا جاتا ہے۔
کبھی آپ نے سوچا ہے کہ ایک دوسرے سے ملتے وقت مسلمان ہمیشہ ہاتھ ہی کیوں ملاتےہیں؟ ہندو نمستے کہنے کیلئے ہمیشہ ہاتھ ہی کیوں جوڑتے ہیں؟ ہیلو کہنے کیلئے ہاتھ ہی کیوں ہلایا جاتا ہے گردن یا پاوں بھی ہلائے جاسکتے ہیں اور تو اور معاشرے کو ایک نئی اکائی یعنی نئی فیملی دینے کیلئے لڑکے والے ہمیشہ لڑکی کا ہاتھ ہی کیوں مانگتےہیں؟ کوئی صدقہ خیرات کرنا ہو یا قربانی کا جانور ذبح کرنا ہو تو چھری پر حصہ داروں کا ہاتھ ہی کیوں لگواتےہیں۔ قسمت کا حال بتانے والا صرف ہاتھ ہی کیوں دیکھتا ہے لکیریں ہاتھ ہی میں کیوں ہیں؟ ایسے کئی سوالوں کا کوئی جواب نہیں ہے مگر شاید ایک ہی ہے کہ ہاتھ میں کچھ تو ہے اسے جادو کہیں یا قسمت لیکن جو بھی ہے بنانے والے نے کمال بنایا ہے۔
انسان کو تخلیق کرنے والے نے اس کی فطرت میں رکھا ہے کہ انسان ہر چیز کو چھو کر دیکھنا چاہتا ہے اسے محسوس کرنا چاہتاہے۔ بچہ پیدا ہونے کے فورا بعد سے ہی چیزوں کو ان کے لمس سے محسوس کرنا شروع ہوجاتا ہے وہ ابھی صحیح سے آنکھیں بھی نہیں کھولتا لیکن وہ صرف لمس کی حدت سے ہی جان جاتاہے کہ کب وہ اپنی ماں کی آغوش میں ہے اور کب کسی اور کی گود میں ہے۔ اسی طرح انسان صرف ہاتھ پکڑ کر ہی جان جاتا ہے کہ کون زندگی بھر ساتھ دے گا اور کون اگلے ہی موڑ پر اپنا راستہ بدل لے گا۔ ایسے ہی کئی بار صرف ہاتھ ملاتے ہی آپ لوگوں کی شخصیت پہچان سکتے ہیں۔ لمس کی حدت اور ہاتھ سے چھونے کا احساس دونوں ہی بڑی عجیب چیز ہیں۔ ہاتھ کسی بھی اچھی یا بری لگنے والی چیز پر پڑتا ہی ہے کہ دماغ گھنٹیاں بجنی شروع ہوجاتی ہیں۔
چھو کر دیکھنے کا شوق انسان کی فطرت میں اتنا زیادہ موجود ہے کہ بچہ جلتے ہوئے انگارے کو پکڑ لیتا ہے یعنی اگر انسان کو تجربہ نہ ہوجائے یا کوئی سمجھا نہ دے تو وہ جلتے ہوئے انگارے کو بھی پکڑ لے۔ کیوں کہ چیزوں کو چھو کر دیکھنا اور پرکھنا تو اس خالق نے انسان کی مٹی میں گوندھ رکھا ہے۔ ہاتھ میں کچھ تو ایسا رکھا ہے اس نے جس کا تعلق سیدھا دل سے ہے۔
اتنی لمبی تمہید باندھ لینے کے بعد یہ بات بڑے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ انسان اس دنیا میں آنے کے بعد سب سے پہلا کام جو کرتا ہے وہ اپنے چاہنے والے کاہاتھ پکڑنا ہے۔ ہوسکتا ہے وہ ہاتھ خود ماں نے ہی بڑھایا ہو یا شاید والد نے انگلی خود ہاتھ میں دے دی ہو۔ انسان چلنا کسی کا ہاتھ پکڑ کر ہی سیکھتا ہے۔ اگر میرا ہاتھ پکڑ کر کسی نے لکھنا نہ سکھایا ہوتا تو آج یہ لکھ نہ پاتا اور آپ سے کبھی نہ کہہ پاتا کہ اپنے گرد موجود ایسے لوگوں کا ہاتھ پکڑیں جنہیں آپ کبھی کھونا نہیں چاہتے۔ کیوں کہ ہاتھ کے لمس میں وہ جادو ہے جو انسان کو ہرچیز سکھا اور سمجھا دیتا ہے۔ ہاتھ پکڑ لینے سے بوڑھے دل جوان ہوجاتے ہیں، برسوں سے سوئی محبتیں جاگ جاتی ہیں۔ لہذا ہاتھ پکڑیں راستے خود بنتے جائیں گے۔ کیوں کہ یہ ہاتھ ہی ہیں جو کھانے کا ذائقہ بدل دیتے ہیں، موسیقی کے ساز سےایسے سر بکھیردیتے ہیں کہ دل باغ باغ ہوجائے اور کورے کاغذ پر پینٹگز کی صورت میں رنگ بھر دیتے ہیں اور اگر من چاہا ہاتھ ہاتھ میں آجائے تو زندگی رنگوں سے بھی حسین ہوجاتی ہے۔
The post ہاتھ تقدیر نہیں ۔۔ زندگی بناتے ہیں!! appeared first on دنیا اردو بلاگ.
from دنیا اردو بلاگ http://bit.ly/2N7Hvbi
No comments:
Post a Comment