Tuesday, May 28, 2019

معیشت اور ثقافت

آج کل سب سے زیادہ زیرِ بحث موضوع ڈالر کی اونچی اڑان اور معشیت کی زبوں حالی ہے۔ طرح طرح کے تبصرے اور تجزیے سننے کو مل رہے ہیں۔ حکومت اور حکمران جماعت کے حامی صورتحال کے دفاع کی ناکام کوشش کرتے نظر آرہے ہیں اور حزب اختلاف طنز کے نشتر برسا رہی ہے۔ بھلا ہو سیاست کا، جس نے بطور قوم ہمیں اتنا تقسیم کردیا ہے کہ وزیراعظم سے ذاتی بغض اور عناد کی وجہ سے ایک طبقہ دگرگوں معاشی حالات کو لے کے خوش ہے۔ ٹی وی اور انٹرنیٹ پر مناظرے کیے جارہے ہیں۔ مگر جامع اور پاٸیدار حل کی نشاندہی کرنے سے قاصر ہیں۔

معیشت کے مساٸل معاشی کم، ذہنی، نفسیاتی اور ثقافتی زیادہ ہیں۔ ماضی میں اس قوم کو کبھی رکشہ دیا گیا، کبھی پیلی ٹیکسی اور کبھی بینظیر انکم سپورٹ کے نام پر اسے بھکاری بنایا گیا۔ محض بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا اس سال کا بجٹ 125 ارب ہے۔ یہ بات درست ہے کہ اس سے لاکھوں گھروں میں مہینے بھر کا راشن آجاتا ہے۔ مگر اس راشن کے پیچھے عزت نفس کا نکلتا جنازہ کوٸی نہیں دیکھتا اور اس مفت خوری کے اثرات کا تجزیہ کوٸی نہیں کرتا۔ قوم کی عزتِ نفس کے بدلے 125 ارب روپے ہر سال بانٹے جاتے ہیں، مگر اس سے پیداواری کام نہیں لیا جاتا۔ اگر اس 125 ارب سے سرکاری اور نجی شعبہ کی شراکت داری سے سندھ اور بلوچستان کے پسماندہ اضلاع میں کوٸی انڈسٹری لگاٸی جاتی تو حالات کیا ہوتے؟ ہزاروں لوگوں کو باعزت روزگار ملتا، لوگوں کی عزتِ نفس مجروع نہ ہوتی اور قوم میں بھکاری پن کو فروغ نہ ملتا۔ اس انڈسٹری سے برآمدات نہ سہی کم از کم مقامی طلب اور رسد میں ضرور فرق آتا۔ اگر ہر سال ایک یا دو اضلاع میں یہ مشق کی جاتی تو آج دس سال بعد 20 اضلاع میں لوگوں کو باعزت روزگار کے مواقعے ملتے اور غربت بہت حد تک کم ہوتی۔

ملازمت اور خاص کر سرکاری ملازمت پاکستانی ثقافت کا حصہ ہے۔ کاروبار کی جگہ نوکری اور مستقل تنخواہ کو فوقیت دی جاتی ہے۔ اس سے خاندان کی بنیادی ضروریات تو پوری ہوجاتی ہیں، مگر معاشی سرگرمی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ کاروبار کا رواج اس قدر کم ہے کہ ہم زرعی ملک ہوتے ہوٸے اپنے لیے خوراک نہیں پیدا کرپارہے۔ لیموں کی قیمت کا رونا تو رویا جارہا ہے، مگر اس بات پر کوٸی بحث نہیں کرتا کہ زرعی ملک کو کیا آڑے آرہا ہے کہ صرف لیموں بھی پیدا نہیں کیا جاسکتا؟

نیدرلینڈ محض پھولوں کی برآمدات سے 5  سے 6 ارب یورو سالانہ کمارہا ہے اور یہاں ٹماٹر اور پیاز بھی ہمساٸے ممالک سے درآمد کیے جاتے ہیں۔ سنگاپور جو کہ رقبے کے حساب سے اسلام آباد سے بھی چھوٹا ہے، کی برآمدات 400 ارب ڈالر سے زیادہ ہیں اور پاکستان کی کل برآمدات 22 ارب ڈالر ہے۔

معیشت کی تمام پریشانیوں اور بیماریوں کا واحد حل کاروبار (Entrepreneurship) ہے۔ مقامی طلب پوری ہو گی، برآمدات سے زرِ مبادلہ آٸے گا، تجارتی خسارہ کم ہوگا، روپیہ مضبوط ہوگا، اور بے کاری اور بے روزگاری کے ماروں کو روزگار میسر ہوگا۔ قوتِ خرید میں اضافہ ہوگا اور طلب بڑھے گی۔ یوں معیشت کا پہیہ چل نکلے گا۔

چین کی مشہور کہاوت ہے کہ کسی کو مچھلی پکڑ کر دینے کے بجائے اسے مچھلی پکڑنے کا طریقہ سکھاؤ تاکہ وہ آپ کا محتاج نہ رہے۔ لہٰذا سرکار بجاٸے بھکاریوں کی طرح چندہ اور امداد دینے کے، نوجوانوں کی سرپرستی کرے، کاروبار میں ان کی مدد کرے، ان پر بھروسہ کرے اور نوجوان کسی مسیحا کا انتظار کرنے کے بجاٸے ، آگے بڑھیں اور روزگار ڈھونڈنے کے بجاٸے روزگار پیدا کریں۔

نوجوانو! آگے بڑھو کہ فقط یہی راستہ باقی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post معیشت اور ثقافت appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو http://bit.ly/2VWYbVL

No comments:

Post a Comment

May or later: Rocket Lab may launch a small probe to Venus

By Unknown Author from NYT Science https://ift.tt/OPbFfny