Friday, June 29, 2018

پاکستان میں پاکستان کی تلاش

وہ بہت تجسس سے اپنے موبائل کو دیکھ رہا تھا۔ یہاں تک کہ آس پاس کیا ہو رہا ہے وہ اس سے بے خبر تھا، اس کا تجسس مجھ میں ایک اضطراب پیدا کر رہا تھا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی میں نے اس سے پوچھ لیا کہ بیٹا آپ ایسا کیا کر رہے ہو جو پچھلے چند لمحوں میں پلک جھپکنے کے علاوہ آپ نے ایک لمحے کے لیئے بھی اپنی نظریں موبائل سے اوجھل نہیں کیں۔ وہ میرا سوال سن کر میری طرف متوجہ ہوا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اس نے اپنی نظریں موبائل سے ہٹا کر میری طرف پھیریں اور بڑی معصومیت سے بولا۔’ میں پاکستان ڈھونڈ رہا ہوں’ ۔ اس کا جواب سن کر ایک لمحے کے لئے تو میں چونک گیا لیکن میرے تجسس نے مجبور کیا کہ میں اس سے مزید سوال کروں۔ میں نے اس سے پوچھا کہ بیٹا آپ جہاں رہتے ہو یہ کونسی جگہ ہے، وہ معصومیت سے بولا’ لاہور’ ۔ پھر میں نے پوچھا کہ کیا لاہور پاکستان میں نہیں ہے؟ اس نے جواب دیا کہ ہے تو پاکستان میں لیکن یہ وہ پاکستان نہیں ہے جو ہمارے استاد محترم نے ہمیں نصاب میں پڑھایا ہے۔ میں نے اس سے پچھا کہ آپ نے کونسا پاکستان پڑھا ہے؟ اس پر وہ قدرے روانی سے بولا’ ایک ایسا پاکستان جہاں امن ہو، جہاں لوگوں میں برداشت ہو، جہاں سچ بولا جاتا ہو، جہاں مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کر دی جاتی ہو، جہاں غریب کو انصاف اس کی دہلیز پر ملتا ہو، جہاں نظام تعلیم یکساں ہو، جہاں علاج معالجے کی مفت سہولیات ہوں، جہاں طاقتور کو کمزور پر برتری نہ ہو، جہاں اقلیتوں کو ان کے حقوق حاصل ہوں۔ جہاں سیاست دان عوام کی خدمت عبادت سمجھ کر کرتے ہوں… وہ جیسے جیسے اپنے سوال کے جواب میں ایک کے بعد ایک مثال دے رہا تھا اس کی آواز میں تیزی آتی جا رہی تھی جس سے میں اس کا درد محسوس کر سکتا تھا۔

لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اس کی کوئی مثال ہی نہیں یا یوں کہہ لیں کہ میرے پاس اس کے جواب میں سوائے ندامت کے اور کچھ نہیں تھا۔ اس کا سوال بہت آسان تھا لیکن شاید موجودہ دور میں تو اس کی کوئی مثال موجود نہیں۔ اگر ماضی کے چند اوراق پلٹ کر دیکھیں تو جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے چند ایسے الفاظ ہیں جو بار بار دہرائے گئے کہ’ ملک اس وقت تاریخ کے نزک دور سے گزر رہا ہے’ ‘ اور اس جملے کے بعد ہم نے 1947 سے آج تک بہت سی تبدیلیاں دیکھیں۔

ماضی میں بھی ان الفاظ کو اپنے ذاتی مفاد کے لئے استعمال کیا گیا اور آج ایک بار پھر وہی الفاظ دہرائے جا رہے ہیں’ ووٹ کو عزت دو’ چاہے ووٹر کو عزت ملے نہ ملے کیونکہ ایوان بالا تک پہنچنے کے لئے ہمیں آپ کے ووٹ کی ضرورت ہے، آپ کی نہیں۔

‘ دو نہیں ایک پاکستان، ہم سب کا پاکستان’ شاید اس جملے میں ہم سب سے مراد وہ لوگ ہیں جو مختلف جماعتوں سے ہوتے ہوئے بالآخر پی ٹی آئی میں آن پہنچے ہیں وہ بھی اس دعوے کے ساتھ کہ اب ہم پرانے لوگ مل کر ایک نیا پاکستان بنائیں گے کیونکہ پرانے پاکستان میں اب ایسا کچھ نہیں رہا جس کے لئے یا تو’ آ ف شور’ کمپنیاں بنائی جا سکیں یا پھر اپنے اردگرد گھومنے والوں کو من چاہے ٹھیکے دیئے جا سکیں۔

بظاہر یہ ہی دو بڑی جماعتیں ہیں جو جو اپنے اپنے مقصد کے لیے نعرے بدل بدل کر ایک بار پھر عوام کو بے قوف بنانے کی غرض سے نکل پڑی ہیں۔ کوئی اسکو’ ریفرنڈم’ قرار دے رہا ہے تو کوئی اسکو’ حق اور باطل’ کی جنگ تو کوئی اسکو کرپٹ اشرافیہ سے’ نجات اور ایک نئے پاکستان کی آخری امید’ ‘ قرار دے رہا ہے۔

ایک لمحے کے لیے مان لیجیئے کہ یہ جو نعرے لگا رہے ہیں یہ عوام کے دلوں کی آواز ہیں اور عوام بھی یہی چاہتے ہیں اور اسی کو جمہوریت کہتے ہیں تو پھر یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہی وہ جموریت ہے جسے عوام چاہتی ہے ؟ کیونکہ جمہوریت میں بادشاہت نہیں ہوتی، جمہوریت میں نسل در نسل اقتدار

تقسیم نہیں کیا جاتا، جمہوریت میں’ چل ہن تیری واری فر میری واری’ کا کھیل بھی نہیں کھیلا جاتا، جمہوریت میں عوام کو پروٹوکول کے نام پر سڑکوں پر خوار نہیں کیا جاتا۔ جمہوریت میں عوام کو عوامی نمائیندوں تک دسترس ہوتی ہے۔

جمہوریت میں کوئی ماں ہسپتال کی سیڑھیوں پر اپنے بچے کو جنم نہیں دیتی۔ جمہوریت میں غریب کا بچہ محض اس لیئے تعلیم سے محروم نہیں رہتا کہ اسکے پاس وسائل نہیں۔ جمہوریت میں ہر پیدا ہونے والا بچہ لاکھوں کا مقروض نہیں ہوتا وہ بھی اس لیئے کہ اسکا ملک تاریخ کے نازک دور سے گزر رہا ہوتا ہے جس کے لیے ایسے اقدام اٹھائے جاتے ہیں کہ نہ صرف موجودہ نسل بلکہ آنے والی کئی نسلیں مقروض کر دی جاتیں ہیں۔

ہم پاکستانی بہت معصوم ہیں۔ ہمیں جو جس راہ پر چلاتا ہے چل پڑتے ہیں اور آنکھیں بند کر کے اس پراعتبار بھی کر لیتے ہیں۔ ہمیں پسند تو جمہوریت ہے لیکن بدقسمتی سے ہمیں وہ جمہویرت حاصل نہیں ہو سکی۔ ہم اپنے جلسوں، تقریروں میں مثالیں تو ترکی کی دیتے ہیں کہ کیسے ترکی کی عوام جمہوریت کے لیئے سڑکوں پر نکل آئی، لیکن بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی اگر ہم مطالعے کے شوقین ہوں تو ہمیں بہت آسانی سے اس سوال کا جواب مل سکتا ہے کہ آخر کیوں ترکی کی عوام جمہوریت کی بالادستی کے لیئے سڑکوں پر نکل آئی۔ وہا ں کے حکمرانوں نے محض دعوے نہیں کیئے، محض اپنی عوام کو خواب نہیں دکھائے، انتخابات جیتنے کے بعد اپنے کی عوام کی خدمت سے غافل نہیں ہوئے، اقتدار میں آنے کے بعد طاقت کے نشے میں گل نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے صحیح معنوں میں جمہوریت کا حق ادا کیا، انہوں نے عوام کی خدمت عبادت سمجھ کر کی اورنتائج ہم سب کے سامنے ہے۔

اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان میں جمہوریت کو چلنے نہیں دیا گیا۔ اگر جمہوریت کو چلنے دیا جاتا تو آج جمہوریت اس قابل ہوتی کہ اپنا احتساب خود کر سکتی۔ لیکن بد قسمتی سے ستر سال گزرنے کے بعد بھی اگر آج جمہوریت اپنے پائوں پر نہیں کھڑی اور ڈگمگا رہی ہے تو اس میں صرف سیاستدان ہی قصور وار نہیں ہیں بلکہ اس میں ہر وہ شخص یا ادارہ قصور وار ہے جس نے جمہوریت پر شب خون مارا، اسکی ٹانگیں کھینچیں اور اسے چلنے نہیں دیا۔

اگرپاکستان کو جمہوری طریقہ سے چلنے دیا جاتا اور بار بار کبھی’ نظریہ ضرورت’ ، اور قوم کے بہترین مفاد’ جیسے نعروں سے اسکی ٹاانگیں نہ کھینچی جاتیں تو شاید میرے پاس ان سب سوالوں کا جواب ہوتا جو میں اس بچے کو نہ دے سکا اور شائد اس بچے کو پاکستان میں ہی پاکستان ڈھونڈنے کی ضرورت نہ پڑتی۔

The post پاکستان میں پاکستان کی تلاش appeared first on دنیا اردو بلاگ.



from دنیا اردو بلاگ https://ift.tt/2KsbCrD

No comments:

Post a Comment

May or later: Rocket Lab may launch a small probe to Venus

By Unknown Author from NYT Science https://ift.tt/OPbFfny